Sunday 23 November 2014

Haidar Online


مسلہ کشمیر کے تناظر میں بنے والی فلم حیدر دیکھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔ 

link

Saturday 22 November 2014

سبز علی ملی خان (سامک) پوسٹ میٹرک سکالرشپس 2015

سامک اکیڈمی آف سائنسز پوسٹ میڑک سکالرشپ 2015

سبزعلی ملی خان کے یوم یوم شہادت پر شروع کردہ سکالرشپ پروگرام کے لیے تمام طلبہ و طالبات جو جماعت دہم کے سالانہ امتحان میں کامیاب قرار پا چکے ہیں وہ درخواست دینے کے اہل ہیں۔ درخواست فارم ڈاون لوڈکر نے کے لیے اس لنک کو اوپن کریں

درخواست فام مکمل کرنے کے بعد ہمیں درجہ ذیل ای-میل ایڈریس پر بھیج دیں یا ہمارے پیج پر ہمیں انباکس کر دیں۔ 

Email:                       sudhanlaureate@yahoo.com

درخواست فارم ہمیں دو فروری 2015 سے پہلے موصول ہو جانے چاہیں
کامیاب امیدواروں کا اعلان 5 فروری 2015 کو کر دیا جائے گا۔ 

شکریہ

سبزعلی ملی خان ایکیڈمی آف سائنسز

Friday 21 November 2014

خودمحتار کشمیر اور بھٹو

 تحریر :: جنید انصاری
پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی قائد ذوالفقار علی بھٹو بھی نظریہ خود مختار کشمیر کے حامی تھے اور متعدد ملاقاتوں میں یہ تسلیم کر چکے تھے کہ کشمیر کے قضیے کا حل یہی ہے کہ کشمیر ی اپنی مستقبل کا فیصلہ خود کریں ۔عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ مرحوم نےاپنے ایک انٹرویو میں مسکراتے ہوئے بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک بڑے قد کاٹھ کے ایک انتہائی ذہین سیاستدان تھے اور باوجود اس کے کہ مجھ سے ہونے والی ملاقاتوں میں انہوں نے تسلیم کر لیا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اس تنازعہ کو عالمی برادری کے سامنے ایک قوم کی آزادی کا مسئلہ بنا کر پیش کرنا ضروری ہے اور خود مختار کشمیر کا نعرہ درست ہے اس کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے اعتراف کیا کہ پنجاب اور سندھ کے جاگیردار خاندان کشمیر سے آنے والے پانی کو اپنی زمینوں کی زرخیزی کے لیے نا گزیر قرار دیتے ہیں اور مسئلہ کشمیر کو اس انداز میں حل کروا کر اگر بات کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ تمام جاگیر دار ٹولہ میرے خلاف ہو جائے گا اور میں اس کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔
(ماخذ و تحریر :: جنید انصاری :: http://m.hamariweb.com/articles/detail.aspx?id=39456 )

سدھن vc مسم وار

تحریر:: مشتاق احمد
برصغیر کے پارٹیشن کے بعد کشمیر دو حصوں میں بٹ گیا - وادیءکشمیر میں کہا گیا کہ شکر ھے ھندوستانی حکومت نے ھماری مدد کی جس کے نتیجے میں ھم پاکستانی انویڈرز سے محفوظ ھو گۓ اور آزاد ھو گۓ - ادھر آراد کشمیر میں کہا گیا کہ شکر ھے ھم نے مہاراجہ کے استبداد سے نجات حاصل کی اور انڈین آرمی کے نرغے میں آنے سے بچ گۓ - اور ھم آزاد ھو گۓ - ان کی آنکھ کی لالی بتا رھی ھے کہ وہ چیخ و پکار کرتے آ رھے ھیں - اور ھماری آنکھ کی سوجھن بتا رھی ھے کہ ھم روتے چلے آ رھے ھیں -

24 اکتوبر 1947 کو ایک حکومت قائم کر دی گئ جس کے پہلے صدر سردار محمد ابراھیم خان مرحوم بنے- اس پہلی حکومت نے اپنا نام '' وار کونسل '' رکھا - اس نے Objectives یہ متعیین کۓ کہ کشمیر کے بقییہ حصہ کو آزاد کروایا جاۓ گا - اور ادھر اس نئ سیٹ اپ کو ایڈمنسٹر کیا جاۓ گا - قانونی حیثییت دینے کے لئے اس حکومت نے دنیا کے بڑی حکومتوں سے اپیل کی کہ ھماری اس حکومت کو تسلیم کیا جاۓ لیکن کوئ بھی اس کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ ھوا - نتیجہ یہ ھوا کہ قانونی طور پر آج تک اس کا سٹیٹس ڈیفائن نہ ھو سکا- یہ نہ تو ایک ساورن سٹیٹ ھے اور نہ ھی پاکستان کا صوبہ ھے - یہ ایک چمگادڑ بن گئ ۔ نہ جانوروں میں اور نہ پرندوں میں -
البتہ یو این سی آئ پی ۔ (یوناٹیڈ نیشنز کمیشن فار انڈیا اینڈ پاکستان نے ایک قرار داد کے زریعے یہ قرار دیا کہ ایک لوکل اتھارٹی۔ یو این سی آئ پی کی نگرانی میں اس علاقہ کو ایڈمنسٹر کرے گی -
پاکستان انڈیا کے زیر کنٹرول کشمیر کے حصے کو Indian-held-Kashmir کہتا ھے اور ھندوستان ۔ پاکستانی کنٹرول والے حصے کو Pakistani -Occupied-Kashmir کہتا ھے - یہ دونوں دراصل صحیح کہتے ھیں- کشمیر کے یہ دونوں حصے در حقیقت ان دو ملکوں کی سیٹلائٹ ریاستیں ھیں- ان ریاستوں کے دارلحکومت سری نگر اور مظفرآباد ھونے چاھیئں - لیکن ھیں نئ دلی اور اسلامآباد میں - آزاد کشمیر کا ایک صدر ھے اور ایک وزیر اعظم - لیکن ان دونوں کی پاورز اسلام آباد کی منسٹری آف کشمیر افیرز کے ڈپٹی سیکریٹیری سے بھی کم ھیں - شیم - جب کہ منسٹری آف کشمیر افیئرز خود پاکستان کی فیڈرل گورنمنٹ کی کمزور تریں میسٹری ھے - یہ منسٹری 1952 میں قائم کی گئ تھی جس کے زریعے حکومت پاکستان نے آزاد کشمیر میں اس کی (Political Autonomy) کی بڑی ھی Serious Breaches کی ھیں - پاکستان کی کسی حکومت نے آج تک آزاد کشمیر کے عوام کی خواہشات کے مطابق یہاں کوئ حکومت قائم نہیں ھونےدی - ھر حکومت نے یہاں اپنے چوائس کی حکومت انڈکٹ کی - مثلا جولائ 1977 کی مثال لے لیجئے - سردار محمد ابراھیم خان مرحوم جو کہ ذولفقار علی بھٹو کے ایلی تھے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے آزاد کشمیر کے پریزیڈنٹ تھے تو جنرل ضیا نے پہلے ان کو پریشرائز کیا کہ ریزائن کرو ۔ پھر فریش الیکشن کرواۓ جس کے نتیجے میں سردار ابراھیم خان دوبارہ پاور میں آ گۓ لیکن ضیا نے انہیں ڈسمس کر دیا اور بریگیڈیر محمد حیات خان مرحوم کو ریاست کا صدر اپوائنت کر دیا -
جب 1948 میں چوہدری غلام عباس سری نگر جیل سے رھا ھوۓ تو سیدھے پاکستان پنہچے اور آزاد کشمیر کی گورنمنٹ میں Active کر دئے گۓ - سب سے پہلے انہیں اپائنٹ کیا گیا کہ وہ تقریبا دو لاکھ ریفیوجیز کی دیکھ بھال کریں- پھر وہ مسلم کانفرنس کے سپریم ھیڈ بھی بن گۓ- ان کی اور صدر سردار محمد ابراھیم خان مرحوم کی آآپس میں بنتی نہیں تھی - ایک طرح سے کہا جا سکتا ھے کہ آزاد کشمیر میں دو Parallel administrations کی صورت بن گئ تھی جو کہ پاکستانی بیوروکریسی کی واردات تھی - چوہدری غلام عباس نے عدم تعاون جاری رکھا یہاں تک کہ مئ 1950 میں سردار ابراھیم خان مرحوم کو صدارت سے ڈسمس کر دیا گیا - اس کے ری ایکشن کے طور پر پونچھ میں ایک UPRISING ھو گئ - اور پونچھ کے وسیع علاقے پر حکومت کا کنٹرول ختم ھو گیا- یہ سلسلہ چلتا رھا ۔ غربت میں اور اضافہ ھوتا گیا- رشوت ۔ بد عنوانی اور خرد برد کا بازار گرم ھو گیا - توبت یہاں تک جا پہنچی کہ 1954 میں سردار محمد ابراھیم خان مرحوم نے میسٹری آف کشمیر افیئر پر یہ الزام لگا دیا کہ اسنے آزاد کشمیر کو پاکستان کی کالونی بنانے کی تجویز دے دی ھے - یہ اختلافات اور تصادمات بڑھتے رھے ۔ اور سردار ابراھیم خان نے شدید احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا اور یہ مطالبہ کر دیا کہ آزاد کشمیر کی پریزیڈنسی کے لۓ ڈیئریکٹ الیکشن ھونا چاھیئے - حکومت پاکستان نے یہ مطالبات بری طرح سے مسترد کر دئے - اس کے شدید ردعمل میں 1955 میں پونچھ میں ایک SUDHAN ARMED REBELLION وقوع پزیر ھو گیا -پاکستان آرمئ اس بعاوت کو کچلنے کے لۓ آ گئ - لیکن اس فیصلے پر فوری نظرثانی کر لی گئ یہ سوچ کر کہ اس ایکشن سے آزاد کشمیر میں فوج کی کریڈیبیلیٹی اور عزت ختم ھو جاۓ گی لہزا دوسرا فیصلہ یہ کیا گیا کہ پنجاب کنسٹیبلری ۔ آرمی کو ریپلیس کرے گی - اور یہ گندا کام کرے گی ۔ لہزا پی سی نے راولاکوٹ اور سدھنوتی کو ٹیک اوور کر لیا - اور مہاراجہ گلاب سنگھ کی بھولی بسی یادوں کو تازہ کیا - یہ ایکشن اس علاقہ کی تاریخ پر ایک بد نما سیاہ دھبہ ھے۔ اس کی بڑی تفصیلا ت ھیں ۔ بہت مختصر کرنے کے باوجود بھی اس قدر طویل ھو گیا-

نوٹ:: سدھن لاریئٹ اور پیج پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ 


اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنے مکمل نام اور مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ ہمارے پیج انباکس میں بھیج دیبلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔ 

سدھن VS مسلم وار

تحریر :: سردار محمد خورشید انور
یہ P C کیا هے؟ اس نے اس آزاد خطہ میں دهشت کیوں پهلائی تهی؟ اس نے نہتے کشمیریوں کو تشدد کا نشانہ کیوں 
بنایا تها؟؟؟
ه"""""""""""""""
4 اکتوبر 1947. کو دنیا کی قدیم ترین ریاست کشمیر جس پر کبهی هندو کبهی ڈوگروں کبهی مسلم کبهی سکهوں کا تسلط رها.
اس کا ایک چهوٹا سا ٹکڑا 4000/ 85000 مربع میل خطہ آذاد کشمیر کے نام سے آزاد کروایا. قیادت سردار ابراهیم نے کی اور بقول انکے وه پاکستانی قیادت کے پاس گئےکہ کچھ اسلحہ وغیره کی امداد کی جائے تو کوئی جرنیل تهے انہوں نے کہا هم خود مشکل میں ہیں اور مزید کہا میرا بس چلے تو ایک توپ کے دهانے کے سامنے کهڑا کرکے اڑا دوں تم کشمیریوں نے بهی آج هی یہ پهڈا کهڑا کرنا تها؟
سردار صاحب پهر سرحدی خان قیوم کے پاس گئےرائیفلیں لیں اور جنگ آزادی صرف کشمیروں نے لڑی تن تنہا۔
سردار صاحب مسلہ کشمیر لے کر اقوام متحده گئےوہاں کیا هوا؟ واپس آئےاپنے آزاد کروائے هوئے ملک میں صرف 22 دن آزاد و خود مختار رهنے والے ملک میں 26 اکتوبر کو پاکستان نے اپنی افواج اتار دیں وهی پاکستان جو کہہ رها تها بس چلے تو توپ کے دهانے کے سامنے رکھ کر اڑا دوں. اس آزاد ملک میں افواج کیوں اتار رها تھا ؟
اس کو جواز بنا کر بهارت نے 27 اکتوبر کو اپنی افواج اتار دیں.
پهر یہ معاہدات کی صورت کشمیریوں کے پاوں میں زنجیریں کیوں پہنائی گیں اس کو پاکستانی وڈیروں کی جاگیر کیوں بنایا گیا ؟
تشنہ طلب هے !
ہیی توپ کے دهانےکے سامنے کشمیریوں کو کهڑا کرنے والوں نے ایک اورسازش کی ادهموئی آزادی بهی ان سے هضم نہیں هوئی کشمیریوں کو بے بس اور غلام بنانے کی شعوری کوشش دیکهئے.ستمبر 1956 کو نہ معلوم وجوهات کے تحت کشمیریوں کو Disarm نہتا کرنے کیلئے آذاد خطہ پر فوج کشی کر دی گئی پاکستان ریگولر فورسیز پنجاب رجمنٹ کو منگ سیکٹر میں بیجها گیا۔
PC یعنی پنجاب کنسٹیبلری ایک فاتح افواج کی طرح داخل هویں مکئی کی کهڑی فصلیں تباه کر ڈالیں چهلیاں پکوا پکوا کر کهاہیں چادر اور چار دیواری کا تقدس مجروح کیابوڑهوں جوانوں کو گهسیٹ گهسیٹ کر مارا گیا هتهیار جمع کئےشک کی بنیاد پر مارا پیٹا گیا بد ترین تشدد کیا گیا هندووں کے خلاف بہادری جوانمردی سے لڑنے والے حیران تهے سہمے هوئے تهے حراساں تهے یہ کیا هو رها هے کس جرم کی سزا مل رهی هے. ہمیں نہتا کیوں کیا جا رها هے.
کیا پاکستان سمجهتا هے هم خود مختاری کی طرف جا سکتے ہیں ؟ اس کی پری پلانگ تهی ان لوگوں کو غلام رکهنا هے. ان سے هتهیار چهیننے ہیں ان سے آزادی چهینی هے ان سے حق خوداریت چهیننا هے ان کا ضمیر خریدنا هے ان کی انا خودداری سب سلب کرنا هے ؟
PC کیوں آئی تهی کشمیریوں کو Disarm کیوں کیا گیا تها ؟ بے گناہ نہتے کشمیریوں پر تشدد کیوں هوا تها ۔۔۔ ؟؟
پاکستان کی پارلیمنٹ قرار داد کے ذریعے کشمیریوں سے معافی مانگیں. آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی اپنے اجلاس میں مشترک قرارداد منظور کرے کہ پاکستانی حکومت PC سے کشمیریوں پر ظلم کرنےاور توهین کرنے تشدد کرنےپر معافی مانگیں۔
هم بهولے نہیں هماری بوڑھی عورتیں اور مرد آن بهی حوالہ دیتے ہیں "یہ واقعہ اس وقت کا هے جب p C آئی تهی" PC کیوں آئی تهی؟ 

نوٹ:: سدھن لاریئٹ اور پیج پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ 


اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنے مکمل نام اور مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ ہمارے پیج انباکس میں بھیج دیبلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔ 

Thursday 20 November 2014

میری آزادی کس نے مسخ کی......؟


تحریر:: عرفان پاشا        //         20/11/14

چی گویرا زندہ رہتا تو معلوم نہیں کتنے انقلاب لاتا...کشمیرمیں جو نصاب پڑھایا جا رہا ہے وہ انسانی وصف پیدا نہیں کرتا لیکن ذہنوں میں لالچ گھسیڑدیتا ہے آگےبڑھنے کی ،دولت کی پوجا کرنے کی اور پھراسی بے ڈنگی دولت سے دماغ میں سرفروشی کا سمندر جنم لیتا ہے اور یہی سمندر پھر کشمیریوں کو نفسانی خواہشات میں مبتلا کر کے زبان پر خاموشی کے تالے لگا دیتا ہے .....کبھی کبھی آزادی کی چاپ سنائی دیتی ہے اس چاپ میں مختلف رنگ کی موسیقی بھی سنائی دیتی ہے جو کبھی کبھی کانوں کو بہت سرور دیتی ہے وہ موسیقی قوم پرستی کی ہوتی ہے ،خودداری اور ایک الگ وطن کی ہوتی ہے یہاں میں پھر چی گویرا کی بات دوہراؤں گا اس نے کہا تھا " انقلاب ردِانقلاب کو زیادہ تیزی سے تیار کرتا ہے”… انڈیا اور پاکستان دونوں کے پاس بے شمار وسائل ہیں اور اسکے بدلے ہمارے پاس کیا ہے ... ایک ٹوٹا پھوٹا جذبہ ، تفرقوں میں بٹی ہوئی قوم ، اور نیم تعلیم یافتہ محدود سوچ رکھنے والے لوگ انکے پاس قید کرنے ،قتل کرنے اور غائب کرنے کا انٹرنیشنل سرٹیفکیٹ ہے اور ہم پر پابندیوں کی ایک لمبی چوڑی لسٹ - جو قوم کو آزادی کا درس دے رہے ہیں وہ بھی انہی کی گود میں بیٹھے ہیں کے چلو جب ماریں گے تو کم سے کم چھاؤں میں تو پھینکیں گے ...!

اندر کی بات ہے دیر سے سمجھ آتی ہے جو لوگ انڈیا اور پاکستان کی گود میں بیٹھ کر خودمختاری کے نعرے لگا رہے ہیں انکو ایک ٹاسک دیا گیا ہے اور وہ ٹاسک ہے کشمیری نوجوان ،انکے سر پر آزادی کا لال جھنڈا باندھو انہیں راہ فرار پر مجبور کرو انکے ہاتھ سے قلم چھین کر بندوق تھماؤ اور انکے ماتھے پر آتنک وادی کا کلانک لگا دو ..! ایک سروے کے مطابق آزاد کشمیر میں قوم پرست جماعتوںسے تعلق رکھنے والے صرف %٥ نوجوان اپنی تعلیم مکمل کر پاتے ہیں باقی % ٩٥ نوجوان اپنی تعلیم مکمل نہیں کر پاتے پھر گھریلو مشکلات ، مالی ذمداریاں اور زندگی میں ایڈجسٹمنٹ کے نام پر خلیجی ممالک ،یورپ اور دوسرے ملکوں کا رخ کرتے ہیں جو نوجوان یورپ کا رخ کرتے ہیں وہ وہاں جا کر مختلف گروپس کو جوائن کرتے ہیں وہ بھی اسی ملک کی نیشنلٹی کے حصول کے لئے اس سارے سنیریو میں آزادی کشمیر کی تحریک اور اسکی ساکھ کا کیا وجود رہ جاتا ہے ...؟ 
اب اس مسلے کا حل کیا ہے ....؟
ہم کشمیریوں میں اجتماہی فکر اب بھی کم ہے۔ باقی دنیا میں بھی ایسا ہے لیکن ہم میں یہ مرض خاصا زیادہ ہے۔ ذاتی اور قبائلی دونوں سطح پر.. قومی رہبری کے لیے زیادہ مستحکم اپروچ درکار ہے۔ ہمیں اپنی سٹرٹجی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے نہیں تو اگر ہم یہ مانتے ہیں کے ابدالی، بابراور جناح ہماری شناخت نہیں یہاں تک کہ مسلمان بھی ہماری شناخت نہیں تو پھر ہمیں اپنی شناخت ظاہر کرنی ہو گی .... اگر ہم نے اپنی شناخت ظاہر نہ کی تو ہم بھکاری ہوں گے۔ جھاڑو دینے والے، موٹر دھونے والے، ہوٹلوں میں برتن دھونے والے ہوں گے اور ٹیبل پر بیٹھ کر کھانے والا کوئی اور ہوگا .....اُبھار تو بڑا ہے، راء میٹریل (raw material) بھی دستیاب ہے۔ بس اس میٹریل کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے ورنہ گمنامی کے لئے تیار رہیئے ....


نوٹ:: سدھن لاریئٹ اور پیج پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ 
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنے   مکمل نام  اور
مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ ہمارے پیج انباکس میں بھیج دیں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

Wednesday 14 May 2014

خدایا ! حلالیوں کی ستائی ہر ماں کو ایسا حرامی بھی عطا فرما۔آمین۔


اس کہانی کا آخری جملہ والدین کے نافرمان/بےقدروں کے لیے زناٹے دار طمانچہ ہے

Source: http://www.express.pk/story/253579/

حسن سپروائزر کا یہ ایس ایم ایس پڑھتے ہی میرے دل سے گویا ایک بھاری پتھر ہٹ گیا کہ تمہاری عجیب النسا آج فجر کے بعد چل بسیں۔


یو نو وٹ۔۔۔اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ وہ کونسا پروجیکٹ ہے جس میں کسی بھی دوسرے پروجیکٹ سے زیادہ وقت، وسائل، محنت، توانائی اور تربیت کے باوجود منافع کا امکان سب سے کم اور خسارے کا امکان سب سے زیادہ ہے۔اس کے باوجود سب سے زیادہ لوگ اسی پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کرتے ہیں ؟ اولاد۔۔۔۔۔۔۔۔
عجیب النسا کی تدفین کے بعد میں اور حسن سپروائزر آمنے سامنے کی دو پرانی قبروں سے گاؤ تکیے کی طرح ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔میری سوالوں بھری آنکھوں سے ٹپکتے تجسس کو حسن سپروائزر کی خفیف سی ٹیڑھی بائیں آنکھ نے لپک لیا۔



’’ بیٹا بس کیا بتاؤں ؟ جائے نماز سے اٹھتے ہی کہنے لگیں، نیند آرہی ہےکوئی ڈسٹرب نہ کرے۔آدھے گھنٹے بعد اٹھا دینا۔میں نے آہستہ سے ان کے کمرے کے کواڑ بھیڑدیے۔پینتیس چالیس منٹ بعد یاد آیا تواندر جھانکا۔ تب تک بڑی بی نکل چکی تھیں۔ برس ہا برس دن رات دیکھنے کی وجہ سے مجھے شائد ان کی عادت ہوگئی تھی اس لیے ابھی خالی خالی سا لگ رہا ہے۔۔۔۔۔‘‘


کل ہی کی تو بات ہے کہ گیارہ مئی انیس سو ستاسی کو عجیب النسا کا اکلوتا بیٹا خالد انھیں یہاں جمع کرا گیا تھا۔ (میں نے آج تک خالد کا صرف نام ہی سنا ہے)۔ بقول حسن سپروائزر عجیب النسا کو یہاں داخل کرانے کے بعد خالد پہلی اور آخری دفعہ ٹھیک ایک سال بعد گیارہ مئی انیس سو اٹھاسی کو ماں سے ملنے آیا تو اس نے دور سے تمہیں (یعنی مجھے ) عجیب النسا کی گود میں دیکھا اور پھر وہ اپنی ماں کے لیے جو تین جوڑے لایا تھا میرے ( یعنی حسن سپروائزر) حوالے کرکے بنا ملے ہی چلا گیا اور پھر نہیں پلٹا۔


لگ بھگ چھ سال بعد بس ایک مرتبہ خالد کا خط ڈاک سے آیا۔ جب حسن سپروائزر نے وہ خط عجیب النسا کو لا کر دیا تومیں انھی کی گود میں سر رکھے بخار میں پھک رہا تھا۔مجھے عجیب النسا کی آنکھیں کبھی نہیں بھول سکتیں جو لفافے پر لکھائی دیکھتے ہی لہلہلا اٹھی تھیں۔پر جیسے جیسے وہ سطر در سطر خط میں اترتی گئیں ، چہرہ بھی پیاسی زمین سا چٹختا چلا گیا۔


اب جب کہ عجیب النسا مرچکی ہیں تو بتانے میں کوئی حرج نہیں کہ اس دن جب وہ کمرے سے باہر آرام کرسی پر بیٹھی دھوپ سینک رہی تھیں تو میں نے وہ خط ان کے تکیے کے نیچے سے نکال کر بڑی مشکل سے ہجے کر کر کے اتنا ضرور سمجھ لیا جتنا ایک چھ ساڑھے چھ سال کا چوری پکڑے جانے کے خوف سے گھبرایا بچہ سمجھ سکتا ہے۔اسلام آباد ، اسکیل اٹھارہ، نوشین، شادی، بابا، فیکٹری، عمرہ، بہت مصروف ہوں ، بچہ کس کا ہے ؟؟ بس خط کی یہی کچھ باتیں مجھے یاد ہیں۔اگلے دن جب عجیب النسا کمرے سے باہر بیٹھی حسبِ معمول دھوپ سینک رہی تھیں تو میں نے پورا خط تسلی سے پڑھنے کے لیے دوبارہ ان کے تکیے کے نیچے ہاتھ مارا مگر وہ وہاں نہیں تھا۔


ارے کہیں آپ یہ تو نہیں سمجھ رہے کہ عجیب النسا سے میرا کوئی براہ راست رشتہ ہے ؟؟؟ نہیں نئیں نئیں۔۔۔حسن سپروائزر کو بھی بس اتنا معلوم ہے کہ مجھے کوئی باہر رکھے پنگھوڑے میں منہ اندھیرے ڈال گیا تھا اور عجیب النسا نے یہ کہہ کر میرا چھوٹا سا بستر اپنے کمرے میں لگوا لیا کہ دل بہلا رہے گا۔


وہ بتاتی رہتی تھیں کہ جب میں بولنے کے قابل ہوا تو اپنے ننھے ننھے پیروں سے سے ان کا چہرہ ٹٹولتے ہوئے کہتا تھا ادیب ان نت آ۔۔۔۔ اور وہ مجھ سے بار بار کہلواتی تھیں ادیب ان نت آ۔۔۔۔انھیں یہ اتنا اچھا لگا کہ جب تک زندہ رہیں ان کا پورا نام لیتا رہا۔ایک میں ہی تو تھا ان کا پورا نام لینے والا۔۔۔۔۔


ہوش سنبھالنے کے بعد کی جو چند یادیں کچھ کچھ ذہن میں اٹکی ہوئی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر دو تین مہینے بعد عجیب النسا صبح ہی صبح کمرے کی الماری میں سے کچھ کاغذ نکالتیں اور پھر میرا ہاتھ پکڑ کے کہتیں چل سرٹیفکیٹ تڑوا لیں۔پھر ہم دونوں رکشے میں بیٹھ کر ایک دفتر میں جاتے اور ان سرٹیفکیٹوں کے بدلے نوٹوں کی ایک گڈی مل جاتی۔( نہ انھوں نے کبھی بتایا نہ میں نے پوچھا کہ ان سرٹیفکیٹوں کا پس منظر کیا ہے )۔
ہر دفعہ عجیب النسا کو سرٹیفکیٹ والے دفتر میں کوئی نہ کوئی جاننے والی مل ہی جاتی اور وہ اس کے کسی بھی غیر متوقع سوال سے پہلے ہی احتیاطاً شروع ہوجاتیں کہ یہ میرا سب سے چھوٹا بیٹا ہے ذوالفقار احمد خان۔ذہانت میں ماشاللہ بالکل اپنے نانا مولوی صاحب ذوالفقار احمد خان سری کوٹی پر گیا ہے۔اس دفتر سے ہم دونوں سیدھے میری نرسری جاتے اور نرسری کا کلرک نوٹوں کی تقریباً آدھی گڈی الگ کرکے رسید کاٹ دیتا۔


میں نے عجیب النسا کے پاس رہتے رہتے ایک روز ایم ایس کمپیوٹر سائنس بھی ( اول پوزیشن ) کرلیا اور آج ایک ملٹی نیشنل میں سادرن ریجن کا ڈائریکٹر ٹیکنیکل ڈویژن ہوں۔جس دن نوکری ملی عجیب النسا نے تقریباً دھکے ہی دے کر اپنے کمرے سے نکال دیا۔


’’ اب تو یہاں سے جا اور اس گھر میں جا کے رہ جو کمپنی نے تجھے دیا ہے‘‘۔

مگر آپ ؟

’’خبردار جو آگے ایک لفظ بھی کہا۔بس یہی میرا آخری گھر ہے اور مٹی بھی یہیں سے اٹھے گی‘‘۔
مگر میں نے عجیب النسا کو بڑی مشکل سے موبائل فون رکھنے پر آمادہ کر لیا۔ماتھا چومتے وقت پتلیاں گھماتے ہوئے کہنے لگیں تجھے میری اتنی فکر کیوں رہتی ہے ؟ یہ کوئی اچھی بات تو نہیں۔کل کو تیرے جورو بچے بھی ہوں گے، ان کی فکر کرنا سیکھ۔


دفتر سے گھر واپسی پر جب بھی ان کے پاس سے ہو کر جاتا تو کہتیں تیرے پاس دنیا میں اور کوئی کام نہیں کیا جو روزانہ مجھے دیکھنے چلا آتا ہے۔یہ بھانڈا تو بہت بعدمیں حسن سپروائزر نے پھوڑا کہ عجیب النسا تمہارے لائے کپڑے جوتے تمہارے جاتے ہی الماری سے نکال فوراً ساتھ کی عورتوں میں تقسیم کردیتی ہیں مگر تازہ انگریزی ناول اور پھول اپنے کنے ہی رکھتی ہیں۔


یہ سب اپنی جگہ مگر میں بہرحال مطمئن ہوں کہ عجیب النسا بنا محتاج ہوئے مرگئیں۔ اب اس دنیا میں کوئی نہیں جو جائے نماز کا کونہ موڑتے موڑتے میرے گال کھینچتا ہوا یہ دعائیہ طعنہ دے سکے کہ ،

خدایا ! حلالیوں کی ستائی ہر ماں کو ایسا حرامی بھی عطا فرما۔آمین۔

Tuesday 6 May 2014

بیٹھک


آزاد کشمیر میں سُدن قبیلے کے جدِ امجد "نواب جسی خان" 1300ء میں براستہ قلات، ڈیرہ اسماعیل خان، جہلم اور راولپنڈی سے تڑالہ اٹھکورا(کوٹلی ھولاڑ) میں داخل ھوے اوریہاں قیام کیا اور بگڑوں کے خلاف جنگ کرکے شکست دی۔ نواب جسی خان کا مزار شریف جسہ پیر کے نام سے منگ کی بلند چوٹی المعروف جسہ پیر پر واقع ہے۔( قبائیل اکبریہ کشمیر و پا کستان مصنف کپٹین ایم اشرف خان)
تڑالہ میں اپنے قیام کے دوران نواب جسی خان نے لوگوں کے مسائل سنے اور ان سے ملاقات کے لیے جو بیٹھک قائم کی اور استعمال کی یہ اس کی تصویر ھے جس کے آثار آج بھی تڑالہ اٹھکورا(کوٹلی ھولاڑ) آزاد کشمیر میں موجود ہیں۔

Thursday 1 May 2014

"کپٹین کرنل شیر خان شہید شہید"



شہیدِ کشمیر
تحریکِ آزادیِ کشمیر کے عظیم قائد، شہیدِ کشمیر، شیرِ جنگ بہادر، فخرِ کشمیر کرنل شیر خان شہید نے 1947 میں مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف کشمیریوں کو یکجا کرتے ہوئے سب سے پہلے باقائدہ جنگ کا آغاز کیا۔ انہوں نے اپنی ذاتی زمین بیچ کر "5 AK Regiment" کی بنیاد رکھتے ہوئے مجاہدین کی گوریلا تربیت کی اور دشمن کو کہیں محاذوں پر شکستِ فاش دی۔ شیروں کی مانند دشمن سے نبرد آزما پونچھ محاذ پر جامِ شہادت نوش فرمایا۔
کرنل شیر خان شہید جب پونچھ کے محاذ پر جان کی بازی لگا کر امر ہوئے تو اُن کے سوابی سے تعلق رکھنے والے دوست غالب خان نے اپنے بیٹے کو وصیحت کی کے جب تمارے گھر بیٹا پیدا ہو تو اس کا نام تم نے کرنل شیر خان شہید کے نام پہ رکھنا ہے۔ غالب خان کرنل شیر خان شہید کے بہت قریبی ساتھی تھے اور وہ جانتے تھے کے یہ مردِ مجاہد صرف نام سے ہی شیر نہیں ہے بلکہ بہادری و شجاعت میں بھی شیرکو مات دیتا ہے۔ اور وہ چاہتے تھے کے ان کے خاندان میں بھی کرنل شیر خان شہید جیسا بہادر اور جری جوان پیدا ہو شاہد وہ نام کی تاثیر سے آگا تھے۔ جب غالب خان کے گھر پوتا پیدا ہوا تو کرنل شیر خان سے متاثر انہوں نے اس کا نام پورا "کرنل شیر خان شہید" ہی رکھ دیا۔ وقت کروٹ بدلتا رہا اور بل آخر غالب خان کا پوتا "کرنل شیر خان شہید" اپنے دادا کی امنگ بن کر پاک فوج میں بطور کپٹین بھرتی ہوا اور اُن کی خواہش کے احترام میں کارگل محاذ پر شجاعت و بہادری سے لڑھتے ہوئے کار ہائے نمایاں سر انجام دیے اور صحفہ قرطاس پر بہادری کے انمٹ نقوش ثبت کرتے ہوئے شہادت کے درجے پہ فائز ہوا اور حکومتِ پاکستان سے نشانِ حیدرکا اعزاز حاصل کیا۔ یہ پاک آرمی کا وہ واحد شہید ہے جس کے نا م میں ناصرف دو بار شہید آتا ہے بلکہ یہ کپٹین بھی ہے اور کرنل بھی۔ "کپٹین کرنل شیر خان شہید شہید"

Sunday 27 April 2014

Leopard killed by Dogs

(Dogs killed a leopard in Tata Pani, Kotli, Pakistan Held Kashmir)
.محکمہ وائلڈ لائف کی ناائلی سے آزاد کشمیر میں جنگلی حیات شدید خطرہ کا شکار نظر آتی ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں سے کہیں ایسے واقعیات
رپورٹ ہوے ہیں جن میں چیتے کی ایک نایاب نسل آبادی کا رخ کر کے موت کو گلے لگا رہی ہے۔ اب کی بار ایک منفرد اور ناقابلِ یقین واقع پیش آیا جس میں تته پانی کوٹلی کے گاؤں بگاه میں دو کتوں نے مل کر ایک جنگلی چیتے کو اپنی خوراک بنا ڈالا۔

Leopard killed by Dogs


(Dogs killed a leopard in Tata Pani, Kotli, Pakistan Held Kashmir)
.محکمہ وائلڈ لائف کی ناائلی سے آزاد کشمیر میں جنگلی حیات شدید خطرہ کا شکار نظر آتی ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں سے کہیں ایسے واقعیات 
رپورٹ ہوے ہیں جن میں چیتے کی ایک نایاب نسل آبادی کا رخ کر کے موت کو گلے لگا رہی ہے۔ اب کی بار ایک منفرد اور ناقابلِ یقین واقع پیش آیا جس میں تته پانی کوٹلی کے گاؤں بگاه میں دو کتوں نے مل کر ایک جنگلی چیتے کو اپنی خوراک بنا ڈالا۔ 

Saturday 26 April 2014

ایثار


دوسروں کے ساتھ ایثار اور احسان کا برتاو اہل اسلام کی پہچان رہا ہے۔ اس کے مختلف اظہار آج بھی مسلم دنیا میں سامنے آتے رہتے ہیں۔ لیکن کینیڈا میں دوران سفر ایک مسلمان مسافر نے جوتوں سے محروم شخص کو جس طرح اپنے جوتے پیش کر دیے، کم ازکم مغربی دنیا میں اس طرح کے واقعات بہت کم ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کی وضع قطع رکھنے والے ایک باریش شخص نے بس پر سفر کے دوران دیکھا کہ بس میں موجود ایک شخص نے جوتوں کی جگہ اپنے پاوں کو بالوں سے بنی ایک جالی میں لپیٹ رکھا ہے اور اس کا لباس بھی زیادہ اچھا نہیں ہے۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ اس مفلوک الحل شخص کے پاس پہننے کیلیے جوتے نہیں ہیں۔ اپنی منزل پر پہنچ کر بس سے اترنے سے پہلے باریش مسلمان نے اپنا جوتے اتار کر اس جوتوں کے بغیر شخص کو پیش کر دیے اور کہا کہ ''میں نے قریب ہی جانا ہے ،میں پیدل چلتے ہوئے یہ مختصر سا سفر آسانی سے جوتوں کے بغیر طے کر سکوں گا۔ '' بس کے ایک آف ڈیوٹی ڈرائیور نے یہ عمل اپنے کیمرے سے محفوظ کر لیا. تصویر بنانے والے آف ڈیوٹی ڈرائیور سرجیت سنگھ ورک کا کہنا ہے باریش مسلمان نے اپنے جوتے کے ساتھ اپنی جرابیں بھی دوسرے شخص کو بن مانگے پیش کیں اور جلدی سے بس سے اتر گیا۔ اس دوران بس اتنا کہا ''آپ یہ جوتے پہن سکتے ہیں، پریشان نہ ہوئیے گا میں قریب ہی رہتا ہوں، میں ننگے پاوں جا سکوں گا۔'' سرجیت سنگھ ورک کے بقول یہ کہہ کر بس سے اترنے کی کی اور جوتا وصول کرنے والے شخص کو شکریہ کرنے کا بھی موقع نہ دیا۔ دوسرے مسافر یہ منظر دیکھتے ہی رہ گئے کیونکہ وہ تو اس مفلوک الحال شخص کے ساتھ بیٹھنے کو بھی تیار نہ تھے۔ کہ اس کا لباس گدلا اور بوسیدہ تھا۔ یہ تصاویر سوشل میڈیا پر سامنے آئیں تو ایک مقامی خبر رساں ادارے نے اس مسلمان مسافر سے رابطہ کیا اور جوتا دوسرے کو دے دینے کی وجہ دریافت کی۔ یقینا کینیڈا میں ایسا کرنا خبر تھا۔ مسلمان نے خبر رساں اداے کو بتایا '' مجھے یہ بہت برا محسوس ہوا کہ ایک شخص ننگے پاوں ہے اور اس کے پاس غربت کی وجہ سے جوتے نہیں ہیں، میں نے بس سے اترنے کے بعد صرف دو منٹ کا پیدل سفر طے کرنا تھا اس لیے میں اپنا جوتا اسے گفٹ کر دیا۔'' خبر رساں ادارے کے مطابق جوتا تحفے کے طور پرپیش کرنے والا مسلمان قریب ہی قائم مسلم ایسوسی ایشن مسجد سے واپس گھر آ رہا تھا۔ اس بارے میں مسجد کے ترجمان مفتی عاصم نے کہا '' ہم مسلمان جب بھی کوئی اچھائی کرتے ہیں تو مقصد اللہ کی خوشنودی کا حصول ہوتا ہے۔ ''
 (siasat.pk)
اللہ ہمیں اپنی مالی اور روحانی آسودگی میں دوسروں کوبھی شامل کرنےکی توفیق عطاء فرمائے۔ امین

Friday 25 April 2014

Kashmir War 47 Martyrs


فاتح میر پور, کشمیر

کپٹین خان محمد خان المعروف خان آف منگ دھرتی کے وہ ثپوت ہیں کے جن پر جتنا رشک کیا جائے کم ہے۔ جس محاذ کا رخ کیا سر خرو ٹھہرے۔ جنگِ آزادیِ کشمیر 1947ء میں آپ کو میر پور محاذ پر تعینات کیا گیا۔ جہاں ڈوگرہ فوج سے مقامی لوگ نبرد آزما تھے۔ آپ نے تمام لوگوں کو منظم کیا اور ڈوگرہ فوج کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ آپ کی بہادری اور جان فروشی کو دیکھ کر لوگوں میں ایک نئے جذبے نے انگڑائی لی اور وہ جذبہ شہادت سے چور جان ہتھیلی پر لیے اپ کی کمانڈ میں ڈوگرہ فوج سے ایسے دیوانہ وار ٹکرائے کے اسے عبرت ناک شکست سے دوچار کرتے ہوئے میرپور کو فتح کر لیا اور اسی نسبت سے خان آپ منگ کو فاتح میر پور کے لقب سے نوازا گیا۔
 تاہم جنگِ آزادیِ کشمیر کے بعد کے حالات سے خان صاحب خوش نہیں تھے مہاراجہ/کشمیری عوام سے مائده قائمہ کے تحت ہی ایک آزاد ریاست کے قیام کا وعدہ ہوا تھا  جبکہ تحریکِ آزادی کشمیر کے بعد آزاد کشمیر میں اس کے برعکس پاکستان نے کشمیریوں کو مزید غلامی میں دھکیل دیا تھا۔ اور اسی وجہ سے 1952ء میں بھی سدھن مسلم وار کے نام سے ایک بغاوت بھی ہو چکی تھی جسے پاکستان نے افواجِ پاکستان کی مدد سے دبا دیا تھا (اس جنگ کی تفصیل آیندہ کسی پوسٹ میں اپلوڈ کی جائے گی )۔ جپ ایوب خان صدرِ پاکستان بنے تو خان صاحب اس کی دعوت پر اسے ملنے پاکستان تشریف لے گئے۔ وہاں کشمیر کے ایشو پر بات چیت ہوئی تو صدر پاکستان نے کوئی تسلی بخش جواب دینے کے آپ کو اپنی کابینہ میں شمولیت کی دعوت دی محصوص عسکری تربیت کی وجہ سے خان صاحب کو اس کی یہ پشکش پسند نہ آئی شدید غصے میں ایوب خان کی دعوت یہ کہہ کر مسترد کر دی کے تم قائدِ عظم کی سیٹ پر بیٹھنے کے حق دار نہیں۔ لہذا اپنی کرسی میرےلیے خالی کرتے ہوئے خود میری کابینہ میں شامل ہو جاو۔ تلخی بڑتی رہی اور جب کوئی حل نکلتا محسوس نہ ہوا تو خان صاحب نے ایوب خان پر واضع کر دیا کے ان حالات میں آزاد کشمیر کے لوگ پاکستان کے ساتھ نہیں رہے سکتے اور وہ واپسی پر پاکستان کے خلاف نہ صرف بغاوت کروئیں گئے بلکہ خود قیادت کریں۔ اس پر ایوب خان نے آپ کو ہری پور جیل میں پابندِ سلاسل کر دیا۔
خان صاحب آزادکشمیر کی حکومت اور حکمرانوں سے سخت خائف تھے ان کا موقف تھا کہ ہم نے ایسی بدترین غلامی کے لیے اپنی جانیں قربان نہیں کی تھی کے جس میں ہم اپنے نمائندے بھی خود نہ چن سکتے ہوں اور پاکستانی حکومت اپنی مرضی سے جب چائے جسے چائے تخت پر بیٹھا دے یا گرا دے۔ وُہ ایک آزاد ریاست کے حامی تھے جس میں پاکستان کا کردار ثانوی نویت کا ہوتا۔ 

Friday 18 April 2014

طنز و مزاح

طنز و مزاح
یہ بات سہنہ بہ سہنہ مجھ تک پنہچی ہے۔ اپ اس بارے کیا رائے رکھتے ہیں ۔۔ ؟اس سے ملتا جلتا کوئی واقعہ جو اپ نے سنا ہو؟

کہتے ہیں کے پونچھ کے لوگ نمبرداروں کو مالیہ دینے سے اکثر انکار کر دیا کرتے تھے۔ مہاراجہ اس بات سے سخت سیخ پا ہوتا تھا اور فورا اپنی فورس بھیچ کر مالیہ نہ دینے والوں کو دربار حاضر کر لیتا تھا۔ جہاں پہنچ کر یہ لوگ مہاراجہ کو یقین دہانی کروا آتے تھے کے آیندہ اسے شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔ مگر اگلی دفعہ پھر ایسا ہی ہوتا۔ مہاراجہ نے اپنے مشیران سے پوچھا کے مہاجرہ کیا ہے جب یہ لوگ ادھر ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کے مالیہ جمع کروایں گئے مگر وہاں پہنچ کر بدل جاتے ہیں۔ :/مہاراجہ کا ایک مشیر عجیب منتق لے کر یوں گویا ہوا کہ قصور ان لوگوں کا نہیں ہے۔ قصور پونچھ کی مٹی کا ہے۔  وہ مٹی ایسی ہے کے اس پر قدم رکھو تو بغاوت روح تک سرایت کر جاتی ہے۔  چناچہ مہاراجہ نے اس عجیب منتق کو پرکھنے کا فیصلہ کیا اور پونچھ کی مٹی منگوا کر بوریوں میں بھر کے رکھ دی اور پونچھ (روالاکوٹ وغیرہ ) سے جہنوں نے مالیہ ادا نہیں کیا تھا دربار حاضر کیا۔ اور پوچھا کے تم لوگ مالیہ کیوں نہیں دیتے ہو؟ بعد از وجوہات لوگوں نے کہا کے اب ہم ہر صورت مالیہ باقائدگی سے جمع کروا دیا کریں گئے۔
مہاراجہ :۔ نےمتعدد بار پوچھا کہ پکی بات ہے ۔۔۔ ؟ پھر مکر تو نہیں جاو گئے وہاں پنہچ کر۔۔ ؟
لوگ :۔ نہیں اب کی بار ایسا ہر گز نہیں ہو گا 
مہاراجہ :۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تم لوگ پہلے بھی ایسا کہہ کر گئے تھے مگر کیا اس کے بر عکس۔ 
لوگ:۔ سرکار اب کی بار آپ کو شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔  ( مہاراجہ کا بار بار استفسار ان کی پیشانی پر شکن ڈال رہا تھا اور مشکل سے اپنے غصے پر قابو کیے ہوئے تھے)
مہاراجہ :۔ اچھا ایسا کرو ان بوریوں کے اوپر چڑھ جاو .. !
لوگ:۔ دل میں اطمینان محسوس کرتے ہوئے کے چلو جان چھوٹی ۔۔ یقین کر لیا مہاراجہ نے اور بوریوں پر چڑھ گئے۔ 
مہاراجہ:۔ اچھا تو بات یہ ہے کہ مجھے ابھی تک تماری بات پہ یقین نہیں آیا تھا اس لیے ایک دفعہ پھر بتاو کے مالیہ دو گئے یا پھر انکار کر دو گئے۔ 
لوگ:۔ زچ ہو کر  ۔۔۔ نہیں دیں گئے۔ 
مہاراجہ :۔ حیرت اورتحسین بھری نظروں سے اپنے مشیر کو دیکھنے لگا۔ 
( مہاراجہ کے بار بار پوچھنے پر وہ اتنے تنگ ہو گئے تھے کے غصے میں منہ سے "نہیں دیں گئے" نکل گیا اور یوں یہ بات مشہور ہو گئی کے پونچھ کی مٹی میں بغاوت ہے)