Thursday 20 November 2014

میری آزادی کس نے مسخ کی......؟


تحریر:: عرفان پاشا        //         20/11/14

چی گویرا زندہ رہتا تو معلوم نہیں کتنے انقلاب لاتا...کشمیرمیں جو نصاب پڑھایا جا رہا ہے وہ انسانی وصف پیدا نہیں کرتا لیکن ذہنوں میں لالچ گھسیڑدیتا ہے آگےبڑھنے کی ،دولت کی پوجا کرنے کی اور پھراسی بے ڈنگی دولت سے دماغ میں سرفروشی کا سمندر جنم لیتا ہے اور یہی سمندر پھر کشمیریوں کو نفسانی خواہشات میں مبتلا کر کے زبان پر خاموشی کے تالے لگا دیتا ہے .....کبھی کبھی آزادی کی چاپ سنائی دیتی ہے اس چاپ میں مختلف رنگ کی موسیقی بھی سنائی دیتی ہے جو کبھی کبھی کانوں کو بہت سرور دیتی ہے وہ موسیقی قوم پرستی کی ہوتی ہے ،خودداری اور ایک الگ وطن کی ہوتی ہے یہاں میں پھر چی گویرا کی بات دوہراؤں گا اس نے کہا تھا " انقلاب ردِانقلاب کو زیادہ تیزی سے تیار کرتا ہے”… انڈیا اور پاکستان دونوں کے پاس بے شمار وسائل ہیں اور اسکے بدلے ہمارے پاس کیا ہے ... ایک ٹوٹا پھوٹا جذبہ ، تفرقوں میں بٹی ہوئی قوم ، اور نیم تعلیم یافتہ محدود سوچ رکھنے والے لوگ انکے پاس قید کرنے ،قتل کرنے اور غائب کرنے کا انٹرنیشنل سرٹیفکیٹ ہے اور ہم پر پابندیوں کی ایک لمبی چوڑی لسٹ - جو قوم کو آزادی کا درس دے رہے ہیں وہ بھی انہی کی گود میں بیٹھے ہیں کے چلو جب ماریں گے تو کم سے کم چھاؤں میں تو پھینکیں گے ...!

اندر کی بات ہے دیر سے سمجھ آتی ہے جو لوگ انڈیا اور پاکستان کی گود میں بیٹھ کر خودمختاری کے نعرے لگا رہے ہیں انکو ایک ٹاسک دیا گیا ہے اور وہ ٹاسک ہے کشمیری نوجوان ،انکے سر پر آزادی کا لال جھنڈا باندھو انہیں راہ فرار پر مجبور کرو انکے ہاتھ سے قلم چھین کر بندوق تھماؤ اور انکے ماتھے پر آتنک وادی کا کلانک لگا دو ..! ایک سروے کے مطابق آزاد کشمیر میں قوم پرست جماعتوںسے تعلق رکھنے والے صرف %٥ نوجوان اپنی تعلیم مکمل کر پاتے ہیں باقی % ٩٥ نوجوان اپنی تعلیم مکمل نہیں کر پاتے پھر گھریلو مشکلات ، مالی ذمداریاں اور زندگی میں ایڈجسٹمنٹ کے نام پر خلیجی ممالک ،یورپ اور دوسرے ملکوں کا رخ کرتے ہیں جو نوجوان یورپ کا رخ کرتے ہیں وہ وہاں جا کر مختلف گروپس کو جوائن کرتے ہیں وہ بھی اسی ملک کی نیشنلٹی کے حصول کے لئے اس سارے سنیریو میں آزادی کشمیر کی تحریک اور اسکی ساکھ کا کیا وجود رہ جاتا ہے ...؟ 
اب اس مسلے کا حل کیا ہے ....؟
ہم کشمیریوں میں اجتماہی فکر اب بھی کم ہے۔ باقی دنیا میں بھی ایسا ہے لیکن ہم میں یہ مرض خاصا زیادہ ہے۔ ذاتی اور قبائلی دونوں سطح پر.. قومی رہبری کے لیے زیادہ مستحکم اپروچ درکار ہے۔ ہمیں اپنی سٹرٹجی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے نہیں تو اگر ہم یہ مانتے ہیں کے ابدالی، بابراور جناح ہماری شناخت نہیں یہاں تک کہ مسلمان بھی ہماری شناخت نہیں تو پھر ہمیں اپنی شناخت ظاہر کرنی ہو گی .... اگر ہم نے اپنی شناخت ظاہر نہ کی تو ہم بھکاری ہوں گے۔ جھاڑو دینے والے، موٹر دھونے والے، ہوٹلوں میں برتن دھونے والے ہوں گے اور ٹیبل پر بیٹھ کر کھانے والا کوئی اور ہوگا .....اُبھار تو بڑا ہے، راء میٹریل (raw material) بھی دستیاب ہے۔ بس اس میٹریل کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے ورنہ گمنامی کے لئے تیار رہیئے ....


نوٹ:: سدھن لاریئٹ اور پیج پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ 
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنے   مکمل نام  اور
مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ ہمارے پیج انباکس میں بھیج دیں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment