Friday 18 April 2014

طنز و مزاح

طنز و مزاح
یہ بات سہنہ بہ سہنہ مجھ تک پنہچی ہے۔ اپ اس بارے کیا رائے رکھتے ہیں ۔۔ ؟اس سے ملتا جلتا کوئی واقعہ جو اپ نے سنا ہو؟

کہتے ہیں کے پونچھ کے لوگ نمبرداروں کو مالیہ دینے سے اکثر انکار کر دیا کرتے تھے۔ مہاراجہ اس بات سے سخت سیخ پا ہوتا تھا اور فورا اپنی فورس بھیچ کر مالیہ نہ دینے والوں کو دربار حاضر کر لیتا تھا۔ جہاں پہنچ کر یہ لوگ مہاراجہ کو یقین دہانی کروا آتے تھے کے آیندہ اسے شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔ مگر اگلی دفعہ پھر ایسا ہی ہوتا۔ مہاراجہ نے اپنے مشیران سے پوچھا کے مہاجرہ کیا ہے جب یہ لوگ ادھر ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کے مالیہ جمع کروایں گئے مگر وہاں پہنچ کر بدل جاتے ہیں۔ :/مہاراجہ کا ایک مشیر عجیب منتق لے کر یوں گویا ہوا کہ قصور ان لوگوں کا نہیں ہے۔ قصور پونچھ کی مٹی کا ہے۔  وہ مٹی ایسی ہے کے اس پر قدم رکھو تو بغاوت روح تک سرایت کر جاتی ہے۔  چناچہ مہاراجہ نے اس عجیب منتق کو پرکھنے کا فیصلہ کیا اور پونچھ کی مٹی منگوا کر بوریوں میں بھر کے رکھ دی اور پونچھ (روالاکوٹ وغیرہ ) سے جہنوں نے مالیہ ادا نہیں کیا تھا دربار حاضر کیا۔ اور پوچھا کے تم لوگ مالیہ کیوں نہیں دیتے ہو؟ بعد از وجوہات لوگوں نے کہا کے اب ہم ہر صورت مالیہ باقائدگی سے جمع کروا دیا کریں گئے۔
مہاراجہ :۔ نےمتعدد بار پوچھا کہ پکی بات ہے ۔۔۔ ؟ پھر مکر تو نہیں جاو گئے وہاں پنہچ کر۔۔ ؟
لوگ :۔ نہیں اب کی بار ایسا ہر گز نہیں ہو گا 
مہاراجہ :۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تم لوگ پہلے بھی ایسا کہہ کر گئے تھے مگر کیا اس کے بر عکس۔ 
لوگ:۔ سرکار اب کی بار آپ کو شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔  ( مہاراجہ کا بار بار استفسار ان کی پیشانی پر شکن ڈال رہا تھا اور مشکل سے اپنے غصے پر قابو کیے ہوئے تھے)
مہاراجہ :۔ اچھا ایسا کرو ان بوریوں کے اوپر چڑھ جاو .. !
لوگ:۔ دل میں اطمینان محسوس کرتے ہوئے کے چلو جان چھوٹی ۔۔ یقین کر لیا مہاراجہ نے اور بوریوں پر چڑھ گئے۔ 
مہاراجہ:۔ اچھا تو بات یہ ہے کہ مجھے ابھی تک تماری بات پہ یقین نہیں آیا تھا اس لیے ایک دفعہ پھر بتاو کے مالیہ دو گئے یا پھر انکار کر دو گئے۔ 
لوگ:۔ زچ ہو کر  ۔۔۔ نہیں دیں گئے۔ 
مہاراجہ :۔ حیرت اورتحسین بھری نظروں سے اپنے مشیر کو دیکھنے لگا۔ 
( مہاراجہ کے بار بار پوچھنے پر وہ اتنے تنگ ہو گئے تھے کے غصے میں منہ سے "نہیں دیں گئے" نکل گیا اور یوں یہ بات مشہور ہو گئی کے پونچھ کی مٹی میں بغاوت ہے)

No comments:

Post a Comment