Sunday 15 November 2015

یوم شہدائے منگ 14 نومبر 1832ء



1832ء میں پونچھ سلطنتِ پنجاب کے زیر قبضہ ایک ریاست تھی جس پر مہارجہ رنجیت سنگھ نے 
شمس خان کو حکمران مقرر کر رکھا تھا اسی طرح ریاست جموں بھی سلطنتِ پنجاب کا ہی حصہ تھی جس پر گلاب سنگھ کو راجہ مقرر کیا گیا تھا۔
سلطنت پنجاب کہ زیر سایہ تمام ریاستوں میں بلعموم اور ریاست پونچھ میں بلخصوص عوام بنیادی انسانی حقوق سے مکمل طور پر محروم تھے اور ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا تھا۔ جس کا تذکرہ کرتے ہوئے جناب امان اللہ خان اپنی کتاب "جہدِ مسلسل" میں لکھتے ہیں کہ پونچھ کے عوام نے اپنے غصب شدہ حقوق کی بحالی کے لیے آواز بلند کرتے ہوئے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے خلاف بغاوت کر دی اور اس کے اقتدار کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
بغاوت کو کچلنے اور باغیوں کو عبرتناک سزا دینے کے لیے رنجیت سنگھ نے راجہ گلاب سنگھ کو ایک بڑے لشکر کہ ساتھ پونچھ پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی خوشنودی حاصل کرنے کہ لیے راجہ گلاب سنگھ نے اس حکم کی تکمیل میں ظلم و بربریت اور انسان کشی کی ایسی سفاک تاریخ رقم کی جس کی مثال تک عبث ہے۔ اہلیانِ پونچھ کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کاٹ کر چوکوں چوراہوں میں بے بے گور و کفن پھینک دیا۔
11 نومبر کہ دن بغاوت کے مرکزی کرداروں سبز علی اور ملی خان کو منگ کے مقام پر کائو (جنگلی زیتون/ وائلڈ آلیو) کے درخت سے الٹا لٹکا کر بطورِ عبرت زندہ کھالیں اتاری (بحوالہ جہدِ مسلسل، جموں فاکس، تاریخ اقوام پونچھ) تا کہ آئندہ کوئی مہاراجہ رنجیت سنگھ کے خلاف بغاوت کا سوچ بھی نا سکے۔ ناصرف یہ کہ کسی کو ان باغیوں کی لاشوں کے پاس جانے کی اجازت نا تھی بلکہ دھرتی ماں کا سینہ بھی ان بے گور و کفن شہدائے پونچھ پر تنگ کر دیا گیا۔ متذکرہ بالا درخت آج بھی منگ کہ مقام پر راجہ گلاب سنگھ کہ ظلم ، بربریت اور ننگی جارحیت کا گواہ ہے۔
اس کے علاوہ پونچھ کہ راجہ شمس خان کو بھی اس کے دست راست راج ولی کے ساتھ گرفتار کرنے کے بعد سر قلم کر کے شہید کر دیا گیا۔
ان تمام شہداء نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر دیے مگر سفاک، ظالم اور جابر حکمران کی اطاعت قبول نا کی اور کلمہ حق آخری سانس تک ادا کرتے رہے۔ آج کے دن ہم دھرتی کہ ان عظیم شہداء کو خراجِ تحسین و سلام پیش کرتے ہیں۔ 

مصائب لاکھ ہوں عزائم کم نہیں ہوتے
یہ وہ سر ہیں جو کٹ سکتے ہیں پر خم نہیں ہوتے۔ 

(فیصل رحیم)

#ThePoonchRebilian #rebilian
* (بعض مورخیں کا 1832ء پر اختلاف ہے اور وہ اس بغاوت کو سال 1837-36ء سے جوڑتے ہیں)
* ( سب سے پہلے زندہ انسانوں کی بطور سزا زندہ کھال اتارنے کی مثال Neo-Assyrian کی روایات میں ملتی ہے)
٭ ( جہد مسلسل/امان اللہ خان، جموں فاکس/باوا ستندر سنگھ، کشمیر تہذیب و ثقافت کے آہینہ میں/ خوشدیو سنگھ، کشمیر تہذیب و ثقافت/ سلیم خان جمی، "REIGNING FAMILY OF LAHORE” BY “ MAJOR SMITH”، تاریخ اقوام پونچھ/ محمد دین فوق کے علاوہ درجنوں تاریخی کتب میں اس وقعہ کی تفصیل اور بغاوت کے اسباب کے بارے مطالعہ کیا جا سکتا ہے)

Sunday 23 November 2014

Haidar Online


مسلہ کشمیر کے تناظر میں بنے والی فلم حیدر دیکھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔ 

link

Saturday 22 November 2014

سبز علی ملی خان (سامک) پوسٹ میٹرک سکالرشپس 2015

سامک اکیڈمی آف سائنسز پوسٹ میڑک سکالرشپ 2015

سبزعلی ملی خان کے یوم یوم شہادت پر شروع کردہ سکالرشپ پروگرام کے لیے تمام طلبہ و طالبات جو جماعت دہم کے سالانہ امتحان میں کامیاب قرار پا چکے ہیں وہ درخواست دینے کے اہل ہیں۔ درخواست فارم ڈاون لوڈکر نے کے لیے اس لنک کو اوپن کریں

درخواست فام مکمل کرنے کے بعد ہمیں درجہ ذیل ای-میل ایڈریس پر بھیج دیں یا ہمارے پیج پر ہمیں انباکس کر دیں۔ 

Email:                       sudhanlaureate@yahoo.com

درخواست فارم ہمیں دو فروری 2015 سے پہلے موصول ہو جانے چاہیں
کامیاب امیدواروں کا اعلان 5 فروری 2015 کو کر دیا جائے گا۔ 

شکریہ

سبزعلی ملی خان ایکیڈمی آف سائنسز

Friday 21 November 2014

خودمحتار کشمیر اور بھٹو

 تحریر :: جنید انصاری
پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی قائد ذوالفقار علی بھٹو بھی نظریہ خود مختار کشمیر کے حامی تھے اور متعدد ملاقاتوں میں یہ تسلیم کر چکے تھے کہ کشمیر کے قضیے کا حل یہی ہے کہ کشمیر ی اپنی مستقبل کا فیصلہ خود کریں ۔عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ مرحوم نےاپنے ایک انٹرویو میں مسکراتے ہوئے بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک بڑے قد کاٹھ کے ایک انتہائی ذہین سیاستدان تھے اور باوجود اس کے کہ مجھ سے ہونے والی ملاقاتوں میں انہوں نے تسلیم کر لیا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اس تنازعہ کو عالمی برادری کے سامنے ایک قوم کی آزادی کا مسئلہ بنا کر پیش کرنا ضروری ہے اور خود مختار کشمیر کا نعرہ درست ہے اس کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے اعتراف کیا کہ پنجاب اور سندھ کے جاگیردار خاندان کشمیر سے آنے والے پانی کو اپنی زمینوں کی زرخیزی کے لیے نا گزیر قرار دیتے ہیں اور مسئلہ کشمیر کو اس انداز میں حل کروا کر اگر بات کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ تمام جاگیر دار ٹولہ میرے خلاف ہو جائے گا اور میں اس کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔
(ماخذ و تحریر :: جنید انصاری :: http://m.hamariweb.com/articles/detail.aspx?id=39456 )

سدھن vc مسم وار

تحریر:: مشتاق احمد
برصغیر کے پارٹیشن کے بعد کشمیر دو حصوں میں بٹ گیا - وادیءکشمیر میں کہا گیا کہ شکر ھے ھندوستانی حکومت نے ھماری مدد کی جس کے نتیجے میں ھم پاکستانی انویڈرز سے محفوظ ھو گۓ اور آزاد ھو گۓ - ادھر آراد کشمیر میں کہا گیا کہ شکر ھے ھم نے مہاراجہ کے استبداد سے نجات حاصل کی اور انڈین آرمی کے نرغے میں آنے سے بچ گۓ - اور ھم آزاد ھو گۓ - ان کی آنکھ کی لالی بتا رھی ھے کہ وہ چیخ و پکار کرتے آ رھے ھیں - اور ھماری آنکھ کی سوجھن بتا رھی ھے کہ ھم روتے چلے آ رھے ھیں -

24 اکتوبر 1947 کو ایک حکومت قائم کر دی گئ جس کے پہلے صدر سردار محمد ابراھیم خان مرحوم بنے- اس پہلی حکومت نے اپنا نام '' وار کونسل '' رکھا - اس نے Objectives یہ متعیین کۓ کہ کشمیر کے بقییہ حصہ کو آزاد کروایا جاۓ گا - اور ادھر اس نئ سیٹ اپ کو ایڈمنسٹر کیا جاۓ گا - قانونی حیثییت دینے کے لئے اس حکومت نے دنیا کے بڑی حکومتوں سے اپیل کی کہ ھماری اس حکومت کو تسلیم کیا جاۓ لیکن کوئ بھی اس کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ ھوا - نتیجہ یہ ھوا کہ قانونی طور پر آج تک اس کا سٹیٹس ڈیفائن نہ ھو سکا- یہ نہ تو ایک ساورن سٹیٹ ھے اور نہ ھی پاکستان کا صوبہ ھے - یہ ایک چمگادڑ بن گئ ۔ نہ جانوروں میں اور نہ پرندوں میں -
البتہ یو این سی آئ پی ۔ (یوناٹیڈ نیشنز کمیشن فار انڈیا اینڈ پاکستان نے ایک قرار داد کے زریعے یہ قرار دیا کہ ایک لوکل اتھارٹی۔ یو این سی آئ پی کی نگرانی میں اس علاقہ کو ایڈمنسٹر کرے گی -
پاکستان انڈیا کے زیر کنٹرول کشمیر کے حصے کو Indian-held-Kashmir کہتا ھے اور ھندوستان ۔ پاکستانی کنٹرول والے حصے کو Pakistani -Occupied-Kashmir کہتا ھے - یہ دونوں دراصل صحیح کہتے ھیں- کشمیر کے یہ دونوں حصے در حقیقت ان دو ملکوں کی سیٹلائٹ ریاستیں ھیں- ان ریاستوں کے دارلحکومت سری نگر اور مظفرآباد ھونے چاھیئں - لیکن ھیں نئ دلی اور اسلامآباد میں - آزاد کشمیر کا ایک صدر ھے اور ایک وزیر اعظم - لیکن ان دونوں کی پاورز اسلام آباد کی منسٹری آف کشمیر افیرز کے ڈپٹی سیکریٹیری سے بھی کم ھیں - شیم - جب کہ منسٹری آف کشمیر افیئرز خود پاکستان کی فیڈرل گورنمنٹ کی کمزور تریں میسٹری ھے - یہ منسٹری 1952 میں قائم کی گئ تھی جس کے زریعے حکومت پاکستان نے آزاد کشمیر میں اس کی (Political Autonomy) کی بڑی ھی Serious Breaches کی ھیں - پاکستان کی کسی حکومت نے آج تک آزاد کشمیر کے عوام کی خواہشات کے مطابق یہاں کوئ حکومت قائم نہیں ھونےدی - ھر حکومت نے یہاں اپنے چوائس کی حکومت انڈکٹ کی - مثلا جولائ 1977 کی مثال لے لیجئے - سردار محمد ابراھیم خان مرحوم جو کہ ذولفقار علی بھٹو کے ایلی تھے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے آزاد کشمیر کے پریزیڈنٹ تھے تو جنرل ضیا نے پہلے ان کو پریشرائز کیا کہ ریزائن کرو ۔ پھر فریش الیکشن کرواۓ جس کے نتیجے میں سردار ابراھیم خان دوبارہ پاور میں آ گۓ لیکن ضیا نے انہیں ڈسمس کر دیا اور بریگیڈیر محمد حیات خان مرحوم کو ریاست کا صدر اپوائنت کر دیا -
جب 1948 میں چوہدری غلام عباس سری نگر جیل سے رھا ھوۓ تو سیدھے پاکستان پنہچے اور آزاد کشمیر کی گورنمنٹ میں Active کر دئے گۓ - سب سے پہلے انہیں اپائنٹ کیا گیا کہ وہ تقریبا دو لاکھ ریفیوجیز کی دیکھ بھال کریں- پھر وہ مسلم کانفرنس کے سپریم ھیڈ بھی بن گۓ- ان کی اور صدر سردار محمد ابراھیم خان مرحوم کی آآپس میں بنتی نہیں تھی - ایک طرح سے کہا جا سکتا ھے کہ آزاد کشمیر میں دو Parallel administrations کی صورت بن گئ تھی جو کہ پاکستانی بیوروکریسی کی واردات تھی - چوہدری غلام عباس نے عدم تعاون جاری رکھا یہاں تک کہ مئ 1950 میں سردار ابراھیم خان مرحوم کو صدارت سے ڈسمس کر دیا گیا - اس کے ری ایکشن کے طور پر پونچھ میں ایک UPRISING ھو گئ - اور پونچھ کے وسیع علاقے پر حکومت کا کنٹرول ختم ھو گیا- یہ سلسلہ چلتا رھا ۔ غربت میں اور اضافہ ھوتا گیا- رشوت ۔ بد عنوانی اور خرد برد کا بازار گرم ھو گیا - توبت یہاں تک جا پہنچی کہ 1954 میں سردار محمد ابراھیم خان مرحوم نے میسٹری آف کشمیر افیئر پر یہ الزام لگا دیا کہ اسنے آزاد کشمیر کو پاکستان کی کالونی بنانے کی تجویز دے دی ھے - یہ اختلافات اور تصادمات بڑھتے رھے ۔ اور سردار ابراھیم خان نے شدید احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا اور یہ مطالبہ کر دیا کہ آزاد کشمیر کی پریزیڈنسی کے لۓ ڈیئریکٹ الیکشن ھونا چاھیئے - حکومت پاکستان نے یہ مطالبات بری طرح سے مسترد کر دئے - اس کے شدید ردعمل میں 1955 میں پونچھ میں ایک SUDHAN ARMED REBELLION وقوع پزیر ھو گیا -پاکستان آرمئ اس بعاوت کو کچلنے کے لۓ آ گئ - لیکن اس فیصلے پر فوری نظرثانی کر لی گئ یہ سوچ کر کہ اس ایکشن سے آزاد کشمیر میں فوج کی کریڈیبیلیٹی اور عزت ختم ھو جاۓ گی لہزا دوسرا فیصلہ یہ کیا گیا کہ پنجاب کنسٹیبلری ۔ آرمی کو ریپلیس کرے گی - اور یہ گندا کام کرے گی ۔ لہزا پی سی نے راولاکوٹ اور سدھنوتی کو ٹیک اوور کر لیا - اور مہاراجہ گلاب سنگھ کی بھولی بسی یادوں کو تازہ کیا - یہ ایکشن اس علاقہ کی تاریخ پر ایک بد نما سیاہ دھبہ ھے۔ اس کی بڑی تفصیلا ت ھیں ۔ بہت مختصر کرنے کے باوجود بھی اس قدر طویل ھو گیا-

نوٹ:: سدھن لاریئٹ اور پیج پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ 


اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنے مکمل نام اور مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ ہمارے پیج انباکس میں بھیج دیبلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔