Sunday 23 November 2014

Haidar Online


مسلہ کشمیر کے تناظر میں بنے والی فلم حیدر دیکھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔ 

link

Saturday 22 November 2014

سبز علی ملی خان (سامک) پوسٹ میٹرک سکالرشپس 2015

سامک اکیڈمی آف سائنسز پوسٹ میڑک سکالرشپ 2015

سبزعلی ملی خان کے یوم یوم شہادت پر شروع کردہ سکالرشپ پروگرام کے لیے تمام طلبہ و طالبات جو جماعت دہم کے سالانہ امتحان میں کامیاب قرار پا چکے ہیں وہ درخواست دینے کے اہل ہیں۔ درخواست فارم ڈاون لوڈکر نے کے لیے اس لنک کو اوپن کریں

درخواست فام مکمل کرنے کے بعد ہمیں درجہ ذیل ای-میل ایڈریس پر بھیج دیں یا ہمارے پیج پر ہمیں انباکس کر دیں۔ 

Email:                       sudhanlaureate@yahoo.com

درخواست فارم ہمیں دو فروری 2015 سے پہلے موصول ہو جانے چاہیں
کامیاب امیدواروں کا اعلان 5 فروری 2015 کو کر دیا جائے گا۔ 

شکریہ

سبزعلی ملی خان ایکیڈمی آف سائنسز

Friday 21 November 2014

خودمحتار کشمیر اور بھٹو

 تحریر :: جنید انصاری
پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی قائد ذوالفقار علی بھٹو بھی نظریہ خود مختار کشمیر کے حامی تھے اور متعدد ملاقاتوں میں یہ تسلیم کر چکے تھے کہ کشمیر کے قضیے کا حل یہی ہے کہ کشمیر ی اپنی مستقبل کا فیصلہ خود کریں ۔عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ مرحوم نےاپنے ایک انٹرویو میں مسکراتے ہوئے بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک بڑے قد کاٹھ کے ایک انتہائی ذہین سیاستدان تھے اور باوجود اس کے کہ مجھ سے ہونے والی ملاقاتوں میں انہوں نے تسلیم کر لیا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اس تنازعہ کو عالمی برادری کے سامنے ایک قوم کی آزادی کا مسئلہ بنا کر پیش کرنا ضروری ہے اور خود مختار کشمیر کا نعرہ درست ہے اس کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے اعتراف کیا کہ پنجاب اور سندھ کے جاگیردار خاندان کشمیر سے آنے والے پانی کو اپنی زمینوں کی زرخیزی کے لیے نا گزیر قرار دیتے ہیں اور مسئلہ کشمیر کو اس انداز میں حل کروا کر اگر بات کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ تمام جاگیر دار ٹولہ میرے خلاف ہو جائے گا اور میں اس کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔
(ماخذ و تحریر :: جنید انصاری :: http://m.hamariweb.com/articles/detail.aspx?id=39456 )

سدھن vc مسم وار

تحریر:: مشتاق احمد
برصغیر کے پارٹیشن کے بعد کشمیر دو حصوں میں بٹ گیا - وادیءکشمیر میں کہا گیا کہ شکر ھے ھندوستانی حکومت نے ھماری مدد کی جس کے نتیجے میں ھم پاکستانی انویڈرز سے محفوظ ھو گۓ اور آزاد ھو گۓ - ادھر آراد کشمیر میں کہا گیا کہ شکر ھے ھم نے مہاراجہ کے استبداد سے نجات حاصل کی اور انڈین آرمی کے نرغے میں آنے سے بچ گۓ - اور ھم آزاد ھو گۓ - ان کی آنکھ کی لالی بتا رھی ھے کہ وہ چیخ و پکار کرتے آ رھے ھیں - اور ھماری آنکھ کی سوجھن بتا رھی ھے کہ ھم روتے چلے آ رھے ھیں -

24 اکتوبر 1947 کو ایک حکومت قائم کر دی گئ جس کے پہلے صدر سردار محمد ابراھیم خان مرحوم بنے- اس پہلی حکومت نے اپنا نام '' وار کونسل '' رکھا - اس نے Objectives یہ متعیین کۓ کہ کشمیر کے بقییہ حصہ کو آزاد کروایا جاۓ گا - اور ادھر اس نئ سیٹ اپ کو ایڈمنسٹر کیا جاۓ گا - قانونی حیثییت دینے کے لئے اس حکومت نے دنیا کے بڑی حکومتوں سے اپیل کی کہ ھماری اس حکومت کو تسلیم کیا جاۓ لیکن کوئ بھی اس کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ ھوا - نتیجہ یہ ھوا کہ قانونی طور پر آج تک اس کا سٹیٹس ڈیفائن نہ ھو سکا- یہ نہ تو ایک ساورن سٹیٹ ھے اور نہ ھی پاکستان کا صوبہ ھے - یہ ایک چمگادڑ بن گئ ۔ نہ جانوروں میں اور نہ پرندوں میں -
البتہ یو این سی آئ پی ۔ (یوناٹیڈ نیشنز کمیشن فار انڈیا اینڈ پاکستان نے ایک قرار داد کے زریعے یہ قرار دیا کہ ایک لوکل اتھارٹی۔ یو این سی آئ پی کی نگرانی میں اس علاقہ کو ایڈمنسٹر کرے گی -
پاکستان انڈیا کے زیر کنٹرول کشمیر کے حصے کو Indian-held-Kashmir کہتا ھے اور ھندوستان ۔ پاکستانی کنٹرول والے حصے کو Pakistani -Occupied-Kashmir کہتا ھے - یہ دونوں دراصل صحیح کہتے ھیں- کشمیر کے یہ دونوں حصے در حقیقت ان دو ملکوں کی سیٹلائٹ ریاستیں ھیں- ان ریاستوں کے دارلحکومت سری نگر اور مظفرآباد ھونے چاھیئں - لیکن ھیں نئ دلی اور اسلامآباد میں - آزاد کشمیر کا ایک صدر ھے اور ایک وزیر اعظم - لیکن ان دونوں کی پاورز اسلام آباد کی منسٹری آف کشمیر افیرز کے ڈپٹی سیکریٹیری سے بھی کم ھیں - شیم - جب کہ منسٹری آف کشمیر افیئرز خود پاکستان کی فیڈرل گورنمنٹ کی کمزور تریں میسٹری ھے - یہ منسٹری 1952 میں قائم کی گئ تھی جس کے زریعے حکومت پاکستان نے آزاد کشمیر میں اس کی (Political Autonomy) کی بڑی ھی Serious Breaches کی ھیں - پاکستان کی کسی حکومت نے آج تک آزاد کشمیر کے عوام کی خواہشات کے مطابق یہاں کوئ حکومت قائم نہیں ھونےدی - ھر حکومت نے یہاں اپنے چوائس کی حکومت انڈکٹ کی - مثلا جولائ 1977 کی مثال لے لیجئے - سردار محمد ابراھیم خان مرحوم جو کہ ذولفقار علی بھٹو کے ایلی تھے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے آزاد کشمیر کے پریزیڈنٹ تھے تو جنرل ضیا نے پہلے ان کو پریشرائز کیا کہ ریزائن کرو ۔ پھر فریش الیکشن کرواۓ جس کے نتیجے میں سردار ابراھیم خان دوبارہ پاور میں آ گۓ لیکن ضیا نے انہیں ڈسمس کر دیا اور بریگیڈیر محمد حیات خان مرحوم کو ریاست کا صدر اپوائنت کر دیا -
جب 1948 میں چوہدری غلام عباس سری نگر جیل سے رھا ھوۓ تو سیدھے پاکستان پنہچے اور آزاد کشمیر کی گورنمنٹ میں Active کر دئے گۓ - سب سے پہلے انہیں اپائنٹ کیا گیا کہ وہ تقریبا دو لاکھ ریفیوجیز کی دیکھ بھال کریں- پھر وہ مسلم کانفرنس کے سپریم ھیڈ بھی بن گۓ- ان کی اور صدر سردار محمد ابراھیم خان مرحوم کی آآپس میں بنتی نہیں تھی - ایک طرح سے کہا جا سکتا ھے کہ آزاد کشمیر میں دو Parallel administrations کی صورت بن گئ تھی جو کہ پاکستانی بیوروکریسی کی واردات تھی - چوہدری غلام عباس نے عدم تعاون جاری رکھا یہاں تک کہ مئ 1950 میں سردار ابراھیم خان مرحوم کو صدارت سے ڈسمس کر دیا گیا - اس کے ری ایکشن کے طور پر پونچھ میں ایک UPRISING ھو گئ - اور پونچھ کے وسیع علاقے پر حکومت کا کنٹرول ختم ھو گیا- یہ سلسلہ چلتا رھا ۔ غربت میں اور اضافہ ھوتا گیا- رشوت ۔ بد عنوانی اور خرد برد کا بازار گرم ھو گیا - توبت یہاں تک جا پہنچی کہ 1954 میں سردار محمد ابراھیم خان مرحوم نے میسٹری آف کشمیر افیئر پر یہ الزام لگا دیا کہ اسنے آزاد کشمیر کو پاکستان کی کالونی بنانے کی تجویز دے دی ھے - یہ اختلافات اور تصادمات بڑھتے رھے ۔ اور سردار ابراھیم خان نے شدید احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا اور یہ مطالبہ کر دیا کہ آزاد کشمیر کی پریزیڈنسی کے لۓ ڈیئریکٹ الیکشن ھونا چاھیئے - حکومت پاکستان نے یہ مطالبات بری طرح سے مسترد کر دئے - اس کے شدید ردعمل میں 1955 میں پونچھ میں ایک SUDHAN ARMED REBELLION وقوع پزیر ھو گیا -پاکستان آرمئ اس بعاوت کو کچلنے کے لۓ آ گئ - لیکن اس فیصلے پر فوری نظرثانی کر لی گئ یہ سوچ کر کہ اس ایکشن سے آزاد کشمیر میں فوج کی کریڈیبیلیٹی اور عزت ختم ھو جاۓ گی لہزا دوسرا فیصلہ یہ کیا گیا کہ پنجاب کنسٹیبلری ۔ آرمی کو ریپلیس کرے گی - اور یہ گندا کام کرے گی ۔ لہزا پی سی نے راولاکوٹ اور سدھنوتی کو ٹیک اوور کر لیا - اور مہاراجہ گلاب سنگھ کی بھولی بسی یادوں کو تازہ کیا - یہ ایکشن اس علاقہ کی تاریخ پر ایک بد نما سیاہ دھبہ ھے۔ اس کی بڑی تفصیلا ت ھیں ۔ بہت مختصر کرنے کے باوجود بھی اس قدر طویل ھو گیا-

نوٹ:: سدھن لاریئٹ اور پیج پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ 


اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنے مکمل نام اور مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ ہمارے پیج انباکس میں بھیج دیبلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔ 

سدھن VS مسلم وار

تحریر :: سردار محمد خورشید انور
یہ P C کیا هے؟ اس نے اس آزاد خطہ میں دهشت کیوں پهلائی تهی؟ اس نے نہتے کشمیریوں کو تشدد کا نشانہ کیوں 
بنایا تها؟؟؟
ه"""""""""""""""
4 اکتوبر 1947. کو دنیا کی قدیم ترین ریاست کشمیر جس پر کبهی هندو کبهی ڈوگروں کبهی مسلم کبهی سکهوں کا تسلط رها.
اس کا ایک چهوٹا سا ٹکڑا 4000/ 85000 مربع میل خطہ آذاد کشمیر کے نام سے آزاد کروایا. قیادت سردار ابراهیم نے کی اور بقول انکے وه پاکستانی قیادت کے پاس گئےکہ کچھ اسلحہ وغیره کی امداد کی جائے تو کوئی جرنیل تهے انہوں نے کہا هم خود مشکل میں ہیں اور مزید کہا میرا بس چلے تو ایک توپ کے دهانے کے سامنے کهڑا کرکے اڑا دوں تم کشمیریوں نے بهی آج هی یہ پهڈا کهڑا کرنا تها؟
سردار صاحب پهر سرحدی خان قیوم کے پاس گئےرائیفلیں لیں اور جنگ آزادی صرف کشمیروں نے لڑی تن تنہا۔
سردار صاحب مسلہ کشمیر لے کر اقوام متحده گئےوہاں کیا هوا؟ واپس آئےاپنے آزاد کروائے هوئے ملک میں صرف 22 دن آزاد و خود مختار رهنے والے ملک میں 26 اکتوبر کو پاکستان نے اپنی افواج اتار دیں وهی پاکستان جو کہہ رها تها بس چلے تو توپ کے دهانے کے سامنے رکھ کر اڑا دوں. اس آزاد ملک میں افواج کیوں اتار رها تھا ؟
اس کو جواز بنا کر بهارت نے 27 اکتوبر کو اپنی افواج اتار دیں.
پهر یہ معاہدات کی صورت کشمیریوں کے پاوں میں زنجیریں کیوں پہنائی گیں اس کو پاکستانی وڈیروں کی جاگیر کیوں بنایا گیا ؟
تشنہ طلب هے !
ہیی توپ کے دهانےکے سامنے کشمیریوں کو کهڑا کرنے والوں نے ایک اورسازش کی ادهموئی آزادی بهی ان سے هضم نہیں هوئی کشمیریوں کو بے بس اور غلام بنانے کی شعوری کوشش دیکهئے.ستمبر 1956 کو نہ معلوم وجوهات کے تحت کشمیریوں کو Disarm نہتا کرنے کیلئے آذاد خطہ پر فوج کشی کر دی گئی پاکستان ریگولر فورسیز پنجاب رجمنٹ کو منگ سیکٹر میں بیجها گیا۔
PC یعنی پنجاب کنسٹیبلری ایک فاتح افواج کی طرح داخل هویں مکئی کی کهڑی فصلیں تباه کر ڈالیں چهلیاں پکوا پکوا کر کهاہیں چادر اور چار دیواری کا تقدس مجروح کیابوڑهوں جوانوں کو گهسیٹ گهسیٹ کر مارا گیا هتهیار جمع کئےشک کی بنیاد پر مارا پیٹا گیا بد ترین تشدد کیا گیا هندووں کے خلاف بہادری جوانمردی سے لڑنے والے حیران تهے سہمے هوئے تهے حراساں تهے یہ کیا هو رها هے کس جرم کی سزا مل رهی هے. ہمیں نہتا کیوں کیا جا رها هے.
کیا پاکستان سمجهتا هے هم خود مختاری کی طرف جا سکتے ہیں ؟ اس کی پری پلانگ تهی ان لوگوں کو غلام رکهنا هے. ان سے هتهیار چهیننے ہیں ان سے آزادی چهینی هے ان سے حق خوداریت چهیننا هے ان کا ضمیر خریدنا هے ان کی انا خودداری سب سلب کرنا هے ؟
PC کیوں آئی تهی کشمیریوں کو Disarm کیوں کیا گیا تها ؟ بے گناہ نہتے کشمیریوں پر تشدد کیوں هوا تها ۔۔۔ ؟؟
پاکستان کی پارلیمنٹ قرار داد کے ذریعے کشمیریوں سے معافی مانگیں. آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی اپنے اجلاس میں مشترک قرارداد منظور کرے کہ پاکستانی حکومت PC سے کشمیریوں پر ظلم کرنےاور توهین کرنے تشدد کرنےپر معافی مانگیں۔
هم بهولے نہیں هماری بوڑھی عورتیں اور مرد آن بهی حوالہ دیتے ہیں "یہ واقعہ اس وقت کا هے جب p C آئی تهی" PC کیوں آئی تهی؟ 

نوٹ:: سدھن لاریئٹ اور پیج پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ 


اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنے مکمل نام اور مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ ہمارے پیج انباکس میں بھیج دیبلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔ 

Thursday 20 November 2014

میری آزادی کس نے مسخ کی......؟


تحریر:: عرفان پاشا        //         20/11/14

چی گویرا زندہ رہتا تو معلوم نہیں کتنے انقلاب لاتا...کشمیرمیں جو نصاب پڑھایا جا رہا ہے وہ انسانی وصف پیدا نہیں کرتا لیکن ذہنوں میں لالچ گھسیڑدیتا ہے آگےبڑھنے کی ،دولت کی پوجا کرنے کی اور پھراسی بے ڈنگی دولت سے دماغ میں سرفروشی کا سمندر جنم لیتا ہے اور یہی سمندر پھر کشمیریوں کو نفسانی خواہشات میں مبتلا کر کے زبان پر خاموشی کے تالے لگا دیتا ہے .....کبھی کبھی آزادی کی چاپ سنائی دیتی ہے اس چاپ میں مختلف رنگ کی موسیقی بھی سنائی دیتی ہے جو کبھی کبھی کانوں کو بہت سرور دیتی ہے وہ موسیقی قوم پرستی کی ہوتی ہے ،خودداری اور ایک الگ وطن کی ہوتی ہے یہاں میں پھر چی گویرا کی بات دوہراؤں گا اس نے کہا تھا " انقلاب ردِانقلاب کو زیادہ تیزی سے تیار کرتا ہے”… انڈیا اور پاکستان دونوں کے پاس بے شمار وسائل ہیں اور اسکے بدلے ہمارے پاس کیا ہے ... ایک ٹوٹا پھوٹا جذبہ ، تفرقوں میں بٹی ہوئی قوم ، اور نیم تعلیم یافتہ محدود سوچ رکھنے والے لوگ انکے پاس قید کرنے ،قتل کرنے اور غائب کرنے کا انٹرنیشنل سرٹیفکیٹ ہے اور ہم پر پابندیوں کی ایک لمبی چوڑی لسٹ - جو قوم کو آزادی کا درس دے رہے ہیں وہ بھی انہی کی گود میں بیٹھے ہیں کے چلو جب ماریں گے تو کم سے کم چھاؤں میں تو پھینکیں گے ...!

اندر کی بات ہے دیر سے سمجھ آتی ہے جو لوگ انڈیا اور پاکستان کی گود میں بیٹھ کر خودمختاری کے نعرے لگا رہے ہیں انکو ایک ٹاسک دیا گیا ہے اور وہ ٹاسک ہے کشمیری نوجوان ،انکے سر پر آزادی کا لال جھنڈا باندھو انہیں راہ فرار پر مجبور کرو انکے ہاتھ سے قلم چھین کر بندوق تھماؤ اور انکے ماتھے پر آتنک وادی کا کلانک لگا دو ..! ایک سروے کے مطابق آزاد کشمیر میں قوم پرست جماعتوںسے تعلق رکھنے والے صرف %٥ نوجوان اپنی تعلیم مکمل کر پاتے ہیں باقی % ٩٥ نوجوان اپنی تعلیم مکمل نہیں کر پاتے پھر گھریلو مشکلات ، مالی ذمداریاں اور زندگی میں ایڈجسٹمنٹ کے نام پر خلیجی ممالک ،یورپ اور دوسرے ملکوں کا رخ کرتے ہیں جو نوجوان یورپ کا رخ کرتے ہیں وہ وہاں جا کر مختلف گروپس کو جوائن کرتے ہیں وہ بھی اسی ملک کی نیشنلٹی کے حصول کے لئے اس سارے سنیریو میں آزادی کشمیر کی تحریک اور اسکی ساکھ کا کیا وجود رہ جاتا ہے ...؟ 
اب اس مسلے کا حل کیا ہے ....؟
ہم کشمیریوں میں اجتماہی فکر اب بھی کم ہے۔ باقی دنیا میں بھی ایسا ہے لیکن ہم میں یہ مرض خاصا زیادہ ہے۔ ذاتی اور قبائلی دونوں سطح پر.. قومی رہبری کے لیے زیادہ مستحکم اپروچ درکار ہے۔ ہمیں اپنی سٹرٹجی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے نہیں تو اگر ہم یہ مانتے ہیں کے ابدالی، بابراور جناح ہماری شناخت نہیں یہاں تک کہ مسلمان بھی ہماری شناخت نہیں تو پھر ہمیں اپنی شناخت ظاہر کرنی ہو گی .... اگر ہم نے اپنی شناخت ظاہر نہ کی تو ہم بھکاری ہوں گے۔ جھاڑو دینے والے، موٹر دھونے والے، ہوٹلوں میں برتن دھونے والے ہوں گے اور ٹیبل پر بیٹھ کر کھانے والا کوئی اور ہوگا .....اُبھار تو بڑا ہے، راء میٹریل (raw material) بھی دستیاب ہے۔ بس اس میٹریل کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے ورنہ گمنامی کے لئے تیار رہیئے ....


نوٹ:: سدھن لاریئٹ اور پیج پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ 
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنے   مکمل نام  اور
مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ ہمارے پیج انباکس میں بھیج دیں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔