Friday 21 November 2014

سدھن vc مسم وار

تحریر:: مشتاق احمد
برصغیر کے پارٹیشن کے بعد کشمیر دو حصوں میں بٹ گیا - وادیءکشمیر میں کہا گیا کہ شکر ھے ھندوستانی حکومت نے ھماری مدد کی جس کے نتیجے میں ھم پاکستانی انویڈرز سے محفوظ ھو گۓ اور آزاد ھو گۓ - ادھر آراد کشمیر میں کہا گیا کہ شکر ھے ھم نے مہاراجہ کے استبداد سے نجات حاصل کی اور انڈین آرمی کے نرغے میں آنے سے بچ گۓ - اور ھم آزاد ھو گۓ - ان کی آنکھ کی لالی بتا رھی ھے کہ وہ چیخ و پکار کرتے آ رھے ھیں - اور ھماری آنکھ کی سوجھن بتا رھی ھے کہ ھم روتے چلے آ رھے ھیں -

24 اکتوبر 1947 کو ایک حکومت قائم کر دی گئ جس کے پہلے صدر سردار محمد ابراھیم خان مرحوم بنے- اس پہلی حکومت نے اپنا نام '' وار کونسل '' رکھا - اس نے Objectives یہ متعیین کۓ کہ کشمیر کے بقییہ حصہ کو آزاد کروایا جاۓ گا - اور ادھر اس نئ سیٹ اپ کو ایڈمنسٹر کیا جاۓ گا - قانونی حیثییت دینے کے لئے اس حکومت نے دنیا کے بڑی حکومتوں سے اپیل کی کہ ھماری اس حکومت کو تسلیم کیا جاۓ لیکن کوئ بھی اس کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ ھوا - نتیجہ یہ ھوا کہ قانونی طور پر آج تک اس کا سٹیٹس ڈیفائن نہ ھو سکا- یہ نہ تو ایک ساورن سٹیٹ ھے اور نہ ھی پاکستان کا صوبہ ھے - یہ ایک چمگادڑ بن گئ ۔ نہ جانوروں میں اور نہ پرندوں میں -
البتہ یو این سی آئ پی ۔ (یوناٹیڈ نیشنز کمیشن فار انڈیا اینڈ پاکستان نے ایک قرار داد کے زریعے یہ قرار دیا کہ ایک لوکل اتھارٹی۔ یو این سی آئ پی کی نگرانی میں اس علاقہ کو ایڈمنسٹر کرے گی -
پاکستان انڈیا کے زیر کنٹرول کشمیر کے حصے کو Indian-held-Kashmir کہتا ھے اور ھندوستان ۔ پاکستانی کنٹرول والے حصے کو Pakistani -Occupied-Kashmir کہتا ھے - یہ دونوں دراصل صحیح کہتے ھیں- کشمیر کے یہ دونوں حصے در حقیقت ان دو ملکوں کی سیٹلائٹ ریاستیں ھیں- ان ریاستوں کے دارلحکومت سری نگر اور مظفرآباد ھونے چاھیئں - لیکن ھیں نئ دلی اور اسلامآباد میں - آزاد کشمیر کا ایک صدر ھے اور ایک وزیر اعظم - لیکن ان دونوں کی پاورز اسلام آباد کی منسٹری آف کشمیر افیرز کے ڈپٹی سیکریٹیری سے بھی کم ھیں - شیم - جب کہ منسٹری آف کشمیر افیئرز خود پاکستان کی فیڈرل گورنمنٹ کی کمزور تریں میسٹری ھے - یہ منسٹری 1952 میں قائم کی گئ تھی جس کے زریعے حکومت پاکستان نے آزاد کشمیر میں اس کی (Political Autonomy) کی بڑی ھی Serious Breaches کی ھیں - پاکستان کی کسی حکومت نے آج تک آزاد کشمیر کے عوام کی خواہشات کے مطابق یہاں کوئ حکومت قائم نہیں ھونےدی - ھر حکومت نے یہاں اپنے چوائس کی حکومت انڈکٹ کی - مثلا جولائ 1977 کی مثال لے لیجئے - سردار محمد ابراھیم خان مرحوم جو کہ ذولفقار علی بھٹو کے ایلی تھے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے آزاد کشمیر کے پریزیڈنٹ تھے تو جنرل ضیا نے پہلے ان کو پریشرائز کیا کہ ریزائن کرو ۔ پھر فریش الیکشن کرواۓ جس کے نتیجے میں سردار ابراھیم خان دوبارہ پاور میں آ گۓ لیکن ضیا نے انہیں ڈسمس کر دیا اور بریگیڈیر محمد حیات خان مرحوم کو ریاست کا صدر اپوائنت کر دیا -
جب 1948 میں چوہدری غلام عباس سری نگر جیل سے رھا ھوۓ تو سیدھے پاکستان پنہچے اور آزاد کشمیر کی گورنمنٹ میں Active کر دئے گۓ - سب سے پہلے انہیں اپائنٹ کیا گیا کہ وہ تقریبا دو لاکھ ریفیوجیز کی دیکھ بھال کریں- پھر وہ مسلم کانفرنس کے سپریم ھیڈ بھی بن گۓ- ان کی اور صدر سردار محمد ابراھیم خان مرحوم کی آآپس میں بنتی نہیں تھی - ایک طرح سے کہا جا سکتا ھے کہ آزاد کشمیر میں دو Parallel administrations کی صورت بن گئ تھی جو کہ پاکستانی بیوروکریسی کی واردات تھی - چوہدری غلام عباس نے عدم تعاون جاری رکھا یہاں تک کہ مئ 1950 میں سردار ابراھیم خان مرحوم کو صدارت سے ڈسمس کر دیا گیا - اس کے ری ایکشن کے طور پر پونچھ میں ایک UPRISING ھو گئ - اور پونچھ کے وسیع علاقے پر حکومت کا کنٹرول ختم ھو گیا- یہ سلسلہ چلتا رھا ۔ غربت میں اور اضافہ ھوتا گیا- رشوت ۔ بد عنوانی اور خرد برد کا بازار گرم ھو گیا - توبت یہاں تک جا پہنچی کہ 1954 میں سردار محمد ابراھیم خان مرحوم نے میسٹری آف کشمیر افیئر پر یہ الزام لگا دیا کہ اسنے آزاد کشمیر کو پاکستان کی کالونی بنانے کی تجویز دے دی ھے - یہ اختلافات اور تصادمات بڑھتے رھے ۔ اور سردار ابراھیم خان نے شدید احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا اور یہ مطالبہ کر دیا کہ آزاد کشمیر کی پریزیڈنسی کے لۓ ڈیئریکٹ الیکشن ھونا چاھیئے - حکومت پاکستان نے یہ مطالبات بری طرح سے مسترد کر دئے - اس کے شدید ردعمل میں 1955 میں پونچھ میں ایک SUDHAN ARMED REBELLION وقوع پزیر ھو گیا -پاکستان آرمئ اس بعاوت کو کچلنے کے لۓ آ گئ - لیکن اس فیصلے پر فوری نظرثانی کر لی گئ یہ سوچ کر کہ اس ایکشن سے آزاد کشمیر میں فوج کی کریڈیبیلیٹی اور عزت ختم ھو جاۓ گی لہزا دوسرا فیصلہ یہ کیا گیا کہ پنجاب کنسٹیبلری ۔ آرمی کو ریپلیس کرے گی - اور یہ گندا کام کرے گی ۔ لہزا پی سی نے راولاکوٹ اور سدھنوتی کو ٹیک اوور کر لیا - اور مہاراجہ گلاب سنگھ کی بھولی بسی یادوں کو تازہ کیا - یہ ایکشن اس علاقہ کی تاریخ پر ایک بد نما سیاہ دھبہ ھے۔ اس کی بڑی تفصیلا ت ھیں ۔ بہت مختصر کرنے کے باوجود بھی اس قدر طویل ھو گیا-

نوٹ:: سدھن لاریئٹ اور پیج پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ 


اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنے مکمل نام اور مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ ہمارے پیج انباکس میں بھیج دیبلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔ 

No comments:

Post a Comment