بچوں سے محبت کے دعوے داروں کے نام کھلا خط




ناصر نعمان ؛ سیاست۔پی-کے

سب سے پہلی عرض یہ ہے کہ پشاور والا واقعہ اتنہائی قابل مذمت ہے اور پوری قوم سمیت ہم بھی اس اندوہناک سانحہ پر گہرے صدمے میں اور اس واقعہ پر تمام ملک کی سیاسی ، مذہبی جماعتیں متحد ہیں ۔۔۔ حتی کہ افغان طالبان نے بھی مذمت کی ہے
لیکن جب اکتوبر 2006 میں باجوڑ کے علاقے ڈمہ ڈولہ کے ایک مدرسے پر ڈورن حملہ میں 84 طلبہ شہید ہوئے تھے
اس وقت بچوں سے محبت کرنے والے یہ نام نہاد دعوے دار کہاں سوئے ہوئے تھے ؟؟؟
بلاشبہ یہ حملہ کافروں کی طرف سے ہوا تھا لیکن ان کافروں کو ڈورن حملہ کرنے کا لائسنس ایک مسلمان حکمران وقت یعنی پرویز مشرف صاحب نے دیا تھا
جس کا جواب یوں دیا جاتا ہے کہ ڈورن حملہ کرنے والے اپنے ٹارگٹ کو حاصل کرنے کرتے ہیں اور عام آدمی یا بچے نہ ماریں احتیاط کرتے ہیں
جواب عرض ہے کہ بی بی سی کی یہ رپورٹ پڑھ لیں شاید کہ کو تسلی ہوسکے کہ وہاں مرنے والے دہشت گرد تھے یا عام معصوم بچے تھے
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/s...s_claims.shtml


(اس کے علاوہ بھی انٹرنیشنل اور لوکل رپورٹس ہیں جن کے مطابق ڈورن حملوں میں ٹارگٹ سے زیادہ عام لوگوں کا قتل 
عام ہورہا ہے) 


بچوں سے محبت کرنے والے ان نام نہاد دعوے داروں کی بے حسی دیکھ لیں کہ اگر قبائلی علاقوں میں شہید ہونے والے معصوم 84 کلیاں مرجھاجائیں تو ماتم کرنا دور کی بات ۔۔۔۔ کسی کو مذمت کرنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی ۔۔۔ اگر ہوئی بھی تو محض رسمی ؟؟؟
اور آج یہ لوگ کس طرح مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں۔۔۔۔ اور میڈیا کس طرح کوریج دے رہا ہے کہ ہر ہر زاویہ سے اس وقعہ کو دکھایا جارہا ہے کہ یہ فلاں کے جوتے ہیں یہ فلاں کے کپڑے ہیں یہ فلاں کی کاپی ہے یہ فلاں کی ماں ہے ۔۔۔ یہ فلاں کا باپ ہے ؟؟؟
یہ سب کیا ہے ؟؟؟
کیا باجوڑ میں مرنے والے بچوں کے خون آلود کپڑے کتابیں جوتے کسی کو نظر نہیں آئے ؟؟؟
کیا ان کی روتی تڑپتی مائیں مائیں نہیں تھیں ؟؟؟
یہ سب میڈیا کی کھلی منافقت ہے ۔۔۔ یہ سب ان لوگوں نے ریٹنگ بڑھانے اور لوگوں کو جذباتی کرنے کے لئے اتنی کوریج دی ہے ۔
ورنہ معصوم بچے وہاں مریں یا پشاور میں ۔۔۔ دکھ سب کا یکساں ہونا چاہیے

اور آخری عرض یہ ہے کہ یہاں تو سات دہشت گرد سب کو نظر آگئے اور سب لعنت ملامت کر رہے ہیں اورایسے درندوں پر لعنت ملامت کرنا بھی چاہیے
لیکن ان مجاہدین کے لئے کیا کہیں گے ۔۔۔جنہوں نے متعدد بچوں کو لال مسجد میں خاک و خون میں نہلادیا تھا ؟؟؟
اُس وقت تو سارا میڈیا اور آج بچوں کی معصومیت کا نام لے کر مگرمچھ کے آنسو بہانے والے نام نہاد فسادی میڈیا پر بیٹھ کر تالیاں بجا رہے تھے ؟؟؟
اُس وقت ان کی انسانیت کہاں سو گئی تھی ؟؟ََ
کیا وہ بچے بچے نہیں تھے ؟؟؟ یا ان کے خون کا رنگ لال نہیں تھا ؟؟؟
آج میڈیا پر حدیث شئیر کی جارہی ہے (جو بالکل صحیح ہے اور جس کا مفہوم ہے) کہ جنگ میں بھی معصوم بچوں عورتوں اور بوڑھوں اور پھل دار درخت اور کھیتیوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے"
لیکن یہ کیسے پاکستان کے مجاہدین تھے ۔۔۔ جن کے پاس آپشن تھا کہ وہ لال مسجد میں موجود بچوں اورعورتوں کو زندہ بچاسکتے تھے ۔
بالکل اسی طرح جیسے پشاور والے واقعہ میں تقریبا ساڑھے نوسو بچوں کو زندہ بچایا جاسکا۔
کیا یہ مجاہدین قرآن و حدیث کی رو سے حد سے تجاوز کرنے والے نہیں ہوئے تھے ؟؟؟
جنہوں نے آپشن کے ہوتے ہوئے بھی سب کے سب کو مٹی میں ملادیا ؟؟؟
یہ دوغلی پالیسی اور کھلی منافقت کیوں ؟؟؟؟
ہماری یہ تحریر ان تمام بچوں سے محبت کرنے والے نام نہاد دعوی داروں کے لئے سوال کی صورت میں ہے جو آج اس وقعہ پر سوشل میڈیا پر ایک جنگ کی صورت میں قلمی جہاد میں مصروف ہیں
اگر آپ واقعی انصاف کے داعی اور بچوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف ہیں
تو آنکھیں کھول کر اپنے زندہ ضمیر کو سامنے رکھ کر اپنے آپ سے ضرور یہ سوال کریں گے اور بچوں پر ظلم میں جو جو ملوث ہے اُن سب کے خلاف اسی طرح آواز اٹھائیں گے
اگر چہ ہم میں پورے ملک میں انصاف قائم کرنے کی طاقت نہیں۔۔۔ لیکن کم از کم ہم اپنی ذات میں اور اپنے قلمی جہاد میں ضرور بالضرور انصاف قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔جزاک اللہ
اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو اپنی ذات میں اور اپنے دائرہ اختیار میں انصاف قائم کرنے کی توفیق عطاء فرما۔آمین
ضروری وضاحت : ہماری اس تحریر کا مقصد ہر گز ہرگز نہ تو پشاور والے عظیم سانحہ کو جسٹی فائی کرنا ہے اور نہ ہی کسی بھی درندہ صفت طالبان کی حمایت کرنا ہے کیوں کہ ہمارے نزدیک بھی کسی بھی بے گناہ انسان کی جان لینے والے کی حمایت کرنا بدترین گناہ ہے ۔۔۔لہذا ہماری اس تحریر کا مقصد صرف تصویر کا دوسرا رخ واضح کرنا ہے جو عموما میڈیا والے کسی نہ کسی وجہ سے عوام کے سامنے پیش کرنے سے کتراتے ہیں ۔تمام دوست احباب اپنے کمنٹس کرنے سے قبل ہمارے مقصد کو ذہن نشین رکھیں ۔جزاک اللہ 

1 comment:

  1. ap nay dil ki baat ki ALLAH ap ko or zyada haq sach pahlanay ki tofeek day AMEEN

    ReplyDelete